ابتدائی مسلمانوں کے صبر و ثبات کو دیکھ کر گہری سوجھ بوجھ اور مضبوط دل ودماغ کا آدمی بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور بڑے بڑے عقلاء دم بخود ہوکر پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کیا اسباب وعوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اس قدر انتہائی اور معجزانہ حد تک ثابت قدم رکھا؟
آخر مسلمانوں نے کس طرح ان بے پایاں مظالم پر صبر کیا جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے۔ باربار کھٹکنے اور دل کی تہوں سے ابھرنے والے اس سوال کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اسباب وعوامل کی طرف ایک سرسری اشارہ کردیا جائے۔
اللہ پر کامل ایمان اور معرفت:
ان میں سب سے پہلا اور اہم سبب اللہ کی ذاتِ واحد پر ایمان اور اس کی ٹھیک ٹھیک معرفت ہے۔ کیونکہ جب ایمان کی بشاشت دلوں میں جانشیں ہوجاتی ہے تو وہ پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور اسی کا پلہ بھاری رہتا ہے اور جو شخص ایسے ایمانِ محکم اور یقین کامل سے بہرہ ور ہو وہ دنیا کی مشکلات کو ...خواہ وہ جتنی بھی زیادہ ہوں اور جیسی بھی بھاری بھرکم ، خطرناک اور سخت ہوں...اپنے ایمان کے بالمقابل اس کا ئی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو کسی بند توڑ اور قلعہ شکن سیلاب کی بالائی سطح پر جم جاتی ہے۔ اس لیے مومن اپنے ایمان کی حلاوت ، یقین کی تازگی اور اعتقاد کی بشاشت کے سامنے ان مشکلات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتا ۔۔پھر اسی ایک سبب سے ایسے اسباب وجود میں آتے ہیں جو اس صبر وثبات قدمی کو قوت بخشتے ہیں۔
حضور ﷺﷺ کی پر کشش قیادت:
نبیﷺ جو امت ِ اسلامیہ بلکہ ساری انسانیت کے سب سے بلند پایہ قائد ورہنماتھے۔ ایسے جسمانی جمال ، نفسانی کمال ، کریمانہ اخلاق ، باعظمت کردار اور شریفانہ عادات واطوار سے بہرہ ور تھے کہ دل خود بخود آپﷺ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور طبیعتیں خودبخود آپﷺ پر نچھاور ہوتی تھیں کیونکہ جن کمالات پر لوگ جان چھڑکتے ہیں ان سے آپﷺ کو اتنا بھر پور حصہ ملا تھا کہ اتنا کسی اور انسان کو دیا ہی نہیں گیا۔
آپﷺ شرف دعظمت اور فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔ عفت وامانت ، صدق وصفا اور جملہ امورِ خیر میں آپﷺ کا وہ امتیاز ی مقام تھا کہ رفقاء تو رفقاء آپﷺ کے دشمنوں کو بھی آپﷺ کی یکتائی وانفرادیت پر کبھی شک نہ گزرا۔ آپﷺ کی زبان سے جو بات نکل گئی ، دشمنوں کو بھی یقین ہوگیا کہ وہ سچی ہے اور ہوکر رہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دوساتھیوں سے چھپ چھپا کر تن تنہا قرآن مجید سنا تھا لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہوگیا تھا۔ انہی تینوں میں سے ایک ابو جہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد (ﷺ ) سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میں نے کیا سنا ہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبد مناف نے شرف وعظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے (غرباء ومساکین کو ) کھلا یا تو ہم نے بھی کھلایا۔ انہوں نے داد ودہش میں سواریاں عطاکیں تو ہم نے بھی عطا کیں۔ انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا یہاں تک کہ جب ہم اور وہ گھنٹوں گھنٹوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوگئے اور ہماری اور ان کی حیثیت ریس کے دومقابل گھوڑوں کی ہوگئی تو اب بنوعبد مناف کہتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نبی (ﷺ ) ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتایئے ہم اسے کب پاسکتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے ، اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے۔ (ابن ہشام ۱/۳۱۶)
چنانچہ ابوجہل کہا کرتا تھا : اے محمد (ﷺ ) ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن تم جو کچھ لے کر آئے ہو اس کی تکذیب کرتے ہیں اور اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿٣٣﴾ (۶: ۳۳)
''یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔'' (ترمذی : تفسیر سورۃ الانعام ۲/۱۳۲)
اس واقعے کی تفصیل گزر چکی ہے کہ ایک روز کفار نے نبیﷺ کو تین بار لعن طعن کی اور تیسری دفعہ میں آپﷺ نے فرمایا کہ اے قریش کی جماعت !میں تمہارے پاس ذبح لے کر آیا ہوں تو یہ بات ان پر اس طرح اثر کرگئی کہ جو شخص عداوت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ وہ بھی بہتر سے بہتر جو جملہ پاسکتا تھا اس کے ذریعہ آپﷺ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ گیا، اسی طرح آپﷺ کی ابو لہب کے بیٹے عتیبہ کے لیے بددعا، ابی بن خلف اور امیہ بن خلف کو چیلنج جیسے کئی واقعات کا ذکر ہوچکا ۔
یہ تو آپﷺ کے دشمنوں کا حال تھا۔ باقی رہے آپﷺ کے صحابہ ؓ اور رفقاء تو آپﷺ تو ان کے لیے دیدہ ودل اور جان وروح کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوں سے آپﷺ کے لیے حبِّ صادق کے جذبات اس طرح ابلتے تھے جیسے نشیب کی طرف پانی بہتا ہے اور جان ودل اس طرح آپﷺ کی طرف کھنچتے تھے جیسے لو ہا مقناطیس کی طرف کھنچتا ہے :
اس محبت وفداکاری اور جاں نثاری وجاںسپاری کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ کو یہ گوارانہ تھا کہ آپﷺ کے ناخن میں خراش آجائے یا آپﷺ کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کوٹ دی جائیں۔محبت و جاں سپاری کے کچھ اور بھی نادر واقعات ہم اپنی اس کتاب میں موقع بہ موقع نقل کریں گے۔ خصوصاً جنگ احد کے واقعات اور حضرت خبیب ؓ کے حالات کے ضمن میں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔