اس واقعۂ معراج کی جزئیات کے پس پردہ مزید جو حکمتیں اور اسرار کا رفرما تھے ان کی بحث کا اصل مقام اسرارِ شریعت کی کتابیں ہیں۔ البتہ چند موٹے موٹے حقائق ایسے ہیں ، جو اس مبارک سفر کے سر چشموں سے پُھوٹ کر سیرت نبوی کے گلشن کی طرف رواں دواں ہیں، اس لیے یہاں مختصرا ًانہیں قلمبند کیا جارہا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اسراء میں اسراء کا واقعہ صرف ایک آیت میں ذکر کر کے کلام کا رخ یہود کی سیاہ کاریوں اور جرائم کے بیان کی جانب موڑدیا ہے۔ پھرانہیں آگاہ کیا ہے کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت دیتا ہے جو سب سے سیدھی اور صحیح راہ ہے۔ قرآن پڑھنے والے کو بسا اوقات شبہ ہوتا ہے کہ دونوں باتیں بے جوڑ ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اس اسلوب کے ذریعے یہ اشارہ فرمارہا ہے کہ اب یہود کو نوعِ انسانی کی قیادت سے معزول کیا جانے والا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن سے ملوث ہونے کے بعد انہیں اس منصب پر باقی نہیں رکھا جاسکتا۔ لہٰذا اب یہ منصب رسول اللہﷺ کو سونپا جائے گا اور دعوت ِ ابراہیمی کے دونوںمراکز ان کے ماتحت کردیئے جائیں گے۔ بلفظ دیگر اب وقت آگیا ہے کہ روحانی قیادت ایک امت سے دوسری امت کو منتقل کردی جائے۔ یعنی ایک ایسی امت سے جس کی تاریخ غدر وخیانت اور ظلم وبدکاری سے بھری ہوئی ہے ، یہ قیادت چھین کر ایک ایسی امت کے حوالے کردی جائے جس سے نیکیوں اور بھلائیوں کے چشمے پھوٹیں گے اور جس کا پیغمبر سب سے زیادہ درست راہ بتانے والے قرآن کی وحی سے بہرہ ور ہے۔
لیکن یہ قیادت منتقل کیسے ہوسکتی ہے جب کہ اس امت کا رسول مکے کے پہاڑوں میں لوگوں کے درمیا ن ٹھوکریں کھا تا پھر رہا ہے ؟ اس وقت یہ ایک سوال تھا جو ایک دوسری حقیقت سے پردہ اٹھا رہا تھا اور وہ حقیقت یہ تھی کہ اسلامی دعوت کا ایک دور اپنے خاتمے اور اپنی تکمیل کے قریب آلگا ہے اور اب دوسرا دور شروع ہونے والا ہے جس کا دھارا پہلے سے مختلف ہوگا۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آیا ت میں مشرکین کو کھلی وارننگ اور سخت دھمکی دی گئی ہے۔ ارشاد ہے :
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا (۱۷: ۱۶)
''اور جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے اصحا ب ِ ثروت کو حکم دیتے ہیں مگر وہ کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں، پس اس بستی پر (تباہی کا ) قول برحق ہوجاتا ہے اور ہم اسے کچل کر رکھ دیتے ہیں۔''
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا (۱۷: ۱۷)
''اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی قوموں کو تباہ کر دیا اور تمہارا رب اپنے بندوں کے جرائم کی خبر رکھنے اور دیکھنے کے لیے کافی ہے۔''
پھر ان آیات کے پہلو بہ پہلو کچھ ایسی آیات بھی ہیں جن میں مسلمانوں کو ایسے تمدنی قواعد وضوابط اور دفعات ومبادی بتلائے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔ گویا اب وہ کسی ایسی سرزمین پر اپنا ٹھکانا بناچکے ہیں، جہاں ہر پہلو سے ان کے معاملات ان کے اپنے ہاتھ میں ہیں اور انہوں نے ایک ایسی وحدت متماسکہ بنالی ہے جس پر سماج کی چکی گھوما کرتی ہے۔ لہٰذا ان آیات میں اشارہ ہے کہ رسول اللہﷺ عنقریب ایسی جائے پناہ اور امن گاہ پالیں گے جہاں آپﷺ کے دین کو استقرار نصیب ہوگا۔
یہ اسرا ء ومعراج کے بابرکت واقعے کی تہہ میں پوشیدہ حکمتوں اور راز ہائے سر بستہ میں سے ایک ایسا راز اور ایک ایسی حکمت ہے جس کا ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق ہے۔ اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ اسے بیان کردیں۔ اسی طرح کی دوبڑی حکمتوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہم نے یہ رائے قائم کی ہے کہ اسراء کا واقعہ یا تو بیعت عقبۂ اولیٰ سے کچھ ہی پہلے کا ہے یا عقبہ کی دونوں بیعتوں کے درمیان کاہے۔ واللہ اعلم
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔