Friday 20 March 2015

واقعہَ معراج اور قریش کا رویہ


علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے صبح کی اور اپنی قوم کو ان بڑی بڑی نشانیوں کی خبردی جواللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی تھیں تو قوم کی تکذیب اور اذیت وضررسانی میں اور شدت آگئی۔ انہوں نے آپﷺ سے سوال کیا کہ بیت المقدس کی کیفیت بیان کریں۔ اس پر اللہ نے آپﷺ کے لیے بیت المقدس کو ظاہر فرمادیا اور وہ آپﷺ کی نگاہوں کے سامنے آگیا۔ چنانچہ آپﷺ نے قوم کو اس کی نشانیاں بتلانا شروع کیں اور ان سے کسی بات کی تردید نہ بن پڑی۔ آپﷺ نے جاتے اور آتے ہوئے ان کے قافلے سے ملنے کا بھی ذکر فرمایا اور بتلایا کہ اس کی آمد کا وقت کیا ہے۔ آپﷺ نے اس اونٹ کی بھی نشاندہی کی جو قافلے کے آگے آگے آرہا تھا پھر جیسا کچھ آپﷺ نے بتایا تھا ویسا ہی ثابت ہوا ، لیکن ان سب کے باوجود ان کی نفرت میں اضافہ ہی ہوا اور ان ظالموں نے کفر کرتے ہوئے کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا۔ (زاد المعاد ۱/۴۸ دیکھئے : صحیح بخاری ۲/۶۸۴ صحیح مسلم ۱/۹۶ ، ابن ہشام ۱/۴۰۲ ، ۴۰۳)
کہاجاتا ہے کہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو اسی موقع پر صدیق کا خطاب دیا گیا۔ کیونکہ آپ نے اس واقعے کی اس وقت تصدیق کی جبکہ اور لوگوں نے تکذیب کی تھی۔ (ابن ہشام ۱/۳۹۹)
معراج کا فائدہ بیان فرماتے ہوئے جو سب سے مختصر اور عظیم بات کہی گئی وہ یہ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَ‌ىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَ‌كْنَا حَوْلَهُ لِنُرِ‌يَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ ﴿١﴾ (۱۷: ۱)
''تاکہ ہم (اللہ تعالیٰ) آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔''
اور انبیاء کرام کے بارے میں یہی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ ارشاد ہے۔
وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ (۶: ۷۵)
''اسی طرح ہم نے ابراہیم ؑ کو آسمان وزمین کا نظامِ سلطنت دکھلایا اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو۔''
اور موسی علیہ السلام سے فرما یا :
لِنُرِ‌يَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَ‌ى ﴿٢٣﴾ (۲۰: ۲۳)
''تاکہ ہم تمہیں اپنی کچھ بڑی نشانیاں دکھلائیں۔''
پھر ان نشانیوں کے دکھلانے کا جو مقصد تھا۔ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد
وَكَذَٰلِكَ نُرِ‌ي إِبْرَ‌اهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ﴿٧٥﴾ (۶: ۷۵) (تاکہ یقین کرنے والوں میں سے ہو) کے ذریعے واضح فرمادیا۔
چنانچہ جب انبیاء کرام علیہم السلام کے علوم کو اس کے مشاہدات کی سند حاصل ہوجاتی تھی تو انہیں عین الیقین کا وہ مقام حاصل ہوجاتا تھا جس کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں کہ ''شنید ہ کے بود مانند دیدہ'' اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ کی راہ میں ایسی ایسی مشکلات جھیل لیتے تھے جنہیں کوئی اور جھیل ہی نہیں سکتا۔ درحقیقت ان کی نگاہوں میں دنیا کی ساری قوتیں مل کر بھی مچھرکے پَر کے برابر حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اسی لیے وہ ان قوتوں کی طرف سے ہونے والی سختیوں اور ایذا رسانیوں کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔