Friday, 20 March 2015

بیعت کی تکمیل اور بارہ تقیب


بیعت کی دفعات پہلے ہی طے ہوچکی تھیں ، ایک بار نزاکت کی وضاحت بھی ہوچکی تھی۔ اب یہ تاکید مزید ہوئی تو لوگوں نے بیک آواز کہا : اسعد بن زرارہ ! اپنا ہاتھ ہٹا ؤ۔ اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔
اس جواب سے حضرت اسعدؓ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ قوم کس حد تک اس راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہے -- درحقیقت حضرت اسعد بن زرارہ حضرت مُصعب بن عُمیر کے ساتھ مل کر مدینے میں اسلام کے سب سے بڑے مبلغ تھے۔ اس لیے طبعی طور پر وہی ان بیعت کنندگان کے دینی سربراہ بھی تھے اور اسی لیے سب سے پہلے انہیں نے بیعت بھی کی۔ چنانچہ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ بنو النجار کہتے ہیں کہ ابوامامہ اسعدبن زرارہ سب سے پہلے آدمی ہیں جنہوں نے آپﷺ سے ہاتھ ملایا۔ اورا س کے بعد بیعتِ عامہ ہوئی۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک آدمی کر کے اٹھے اور آپﷺ نے ہم سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔( مسند احمد ۳/۳۲۲ )
باقی رہیں دوعورتیں جو اس موقعے پر حاضر تھیں تو ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے کبھی کسی اجنبی عورت سے مصافحہ نہیں کیا۔( صحیح مسلم باب کیفیۃ بیعۃ النساء ۲/۱۳۱)
بارہ نقیب:
بیعت مکمل ہوچکی تو رسول اللہﷺ نے یہ تجویز رکھی کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں۔ جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذکے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمے دار اور مکلف ہوں۔ آپ کا ارشاد تھا کہ لوگ اپنے اندر سے بارہ نقیب پیش کیجیے تاکہ وہی لوگ اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں۔ آپﷺ کے اس ارشاد پر فوراً ہی نقیبوں کا انتخاب عمل میں آگیا۔ نو خَزَرج سے منتخب کیے گئے اور تین اَوس سے۔ نام یہ ہیں :
خزر ج کے نقباء:
۱۔ اسعد بن زرارہ بن عدس ۲۔ سعد بن ربیع بن عَمرو
۳۔ عبد اللہ بن رواحہ بن ثعلبہ ۴۔رافع بن مالک بن عجلان
۵۔براء بن معرور بن صخر ۶۔ عبد اللہ بن عَمرو بن حرام
۷۔ عبادہ بن صامت بن قیس ۸۔ سَعد بن عُبادہ بن دلیم
۹۔ مُنذر بن عَمرو بن خنیس
اوس کے نقباء :
۱۔اُسید بن حضیر بن سماک ۲۔ سعد بن خیثمہ بن حارث
۳۔ رِفَاعہ بن عبد المنذر بن زبیر
جب ان نقباء کا انتخاب ہوچکا تو ان سے سردار اور ذمے دار ہونے کی حیثیت سے رسول اللہﷺ نے ایک اور عہد لیا۔ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں۔ جیسے حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔ ان سب نے کہا : جی ہاں۔( ابن ہشام ۱/۴۴۳، ۴۴۴، ۴۴۶ 3 ابن ہشام ۱/۴۴۷، زاد المعاد ۲/۵۱)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔