صحابہ کرامؓ جانتے تھے کہ یہ مشتِ خاک جسے انسان کہا جاتا ہے اس پر کتنی بھاری بھرکم اور زبردست ذمہ داریاں ہیں اور یہ کہ ان ذمہ داریوں سے کسی صورت میں گریز اور پہلو تہی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس گریز کے جو نتائج ہوں گے وہ موجودہ ظلم وستم سے زیادہ خوفناک اور ہلاکت آفریں ہوں گے اور اس کے گریز بعد خود ان کو اور ساری انسانیت کو جو خسارہ لاحق ہوگا وہ اس قدر شدید ہوگا کہ اس ذمہ داری کے نتیجہ میں پیش آنے والی مشکلات اس خسارے کے مقابل کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔
حضور ﷺتعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے ان کے نفوس کا تزکیہ اور نہایت دقیق اور گہری تربیت دے رہے تھے اور روح کی بلندی ، قلب کی صفائی ، اخلاق کی پاکیزگی، مادیات کے غلبے سے آزادی ، شہوات کی مقاومت اور رب السموات والارض کی کشش کے مقامات کی جانب ان کے نفوسِ قدسیہ کی حدی خوانی فرمارہے تھے۔ آپﷺ ان کے دلوں کی بجھتی ہوئی چنگاری کو بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کردیتے تھے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور زار ہدایت میں پہنچارہے تھے۔ انہیں اذیتوں پر صبر کی تلقین فرماتے تھے اور شریفانہ درگزر اور قہرِ نفس کی ہدایت دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی دینی پختگی فزوں تر ہوتی گئی اور وہ شہوات سے کنارہ کشی ، رضائے الٰہی کی راہ میں جاںسپاری ، جنت کے شوق ، علم کی حرص، دین کی سمجھ ، نفس کے محاسبے ، جذبات کو دبانے ، رجحا نات کو موڑنے ، ہیجانات کی لہروں پر قابو پانے اور صبر وسکون اور عزّووقار کی پابندی کرنے میں انسانیت کا نادرہ ٔ روز گار نمونہ بن گئے۔
یہ صحابہ میں بھی احساسِ ذمہ داری کی تقویت کا باعث تھا۔ صحابہ کرامؓ اس بات کا غیر متزلزل یقین رکھتے تھے کہ انہیں رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ پھر ان کے چھوٹے بڑے اور معمولی و غیرمعمولی ہر طرح کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ اس کے بعد یا تو نعمتوں بھری دائمی جنت ہوگی یا عذاب سے بھڑکتی ہوئی جہنم۔ اس یقین کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ اپنی زندگی امید وبیم کی حالت میں گزارتے تھے۔ یعنی اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتے تھے اور اس کے عذاب کا خوف اور ان کی کیفیت وہی رہتی تھی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ :
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ ﴿٦٠﴾ (۲۳: ۶۰)
''وہ جو کچھ کرتے ہیں دل کے اس خوف کے ساتھ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے۔''
انہیں اس کا بھی یقین تھا کہ دنیا اپنی ساری نعمتوں اور مصیبتوں سمیت آخرت کے مقابل مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں اور یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی ساری مشکلات ، مشقتیں اور تلخیاں ہیچ تھیں ، اس لیے وہ ان مشکلات اور تلخیوں کوکوئی حیثیت نہیں دیتے تھے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔