Friday, 20 March 2015

دوسری بیعتِ عقبہ


نبوت کے تیرہویں سال موسم حج - جون ۶۲۲ ء - میں یثرب کے ستر سے زیادہ مسلمان فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لائے۔ یہ اپنی قوم کے مشرک حاجیوں میں شامل ہوکر آئے تھے اور ابھی یثرب ہی میں تھے ، یامکے کے راستے ہی میں تھے کہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کب تک رسول اللہﷺ کو یوں ہی مکے کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے ، ٹھوکریں کھا تے ، اور خوفزدہ کیے جاتے چھوڑے رکھیں گے ؟
پھر جب یہ مسلمان مکہ پہنچ گئے تو درپردہ نبیﷺ کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع کی اور آخر کار اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ دونوں فریق ایام تشریق کے درمیانی دن - ۱۲؍ ذی الحجہ کو - منیٰ میں جمرہ ٔ اولیٰ، یعنی جمرہ ٔ عقبہ کے پاس جو گھاٹی ہے اسی میں جمع ہوں اور یہ اجتماع رات کی تاریکی میں بالکل خفیہ طریقے پر ہو۔یہی وہ اجتماع ہے جس نے اسلام وبت پرستی کی جنگ میں رفتارِزمانہ کا رخ موڑ دیا۔
حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں :
''ہم لوگ حج کے لیے نکلے۔ رسول اللہﷺ سے ایام تشریق کے درمیانی روز عَقَبہ میں ملاقات طے ہوئی اور بالآخر وہ رات آگئی جس میں رسول اللہﷺ سے ملاقات طے تھی۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار عبد اللہ بن حرام بھی تھے (جو ابھی اسلام نہ لائے تھے ) ہم نے ان کو ساتھ لے لیا تھا - ورنہ ہمارے ساتھ ہماری قوم کے جو مشرکین تھے ہم ان سے اپنا سارا معاملہ خفیہ رکھتے تھے - مگر ہم نے عبد اللہ بن حرام سے بات چیت کی اور کہا: اے ابوجابر ! آپ ہمارے ایک معزز اور شریف سربراہ ہیں اور ہم آپ کو آپ کی موجودہ حالت سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کل کلاں کو آگ کا ایندھن نہ بن جائیں۔ اس کے بعد ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتلایا کہ آج عقبہ میں رسول اللہﷺ سے ہماری ملاقات طے ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ہمارے ساتھ عقبہ میں تشریف لے گئے اور نقیب بھی مقرر ہوئے۔ ''
حضرت کعبؓ واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم لو گ حسبِ دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے ڈیروں میں سوئے ، لیکن جب تہائی رات گزر گئی تو اپنے ڈیروں سے نکل نکل کر رسول اللہﷺ کے ساتھ طے شدہ مقام پر جا پہنچے۔ ہم اس طرح چپکے چپکے دبک کر نکلتے تھے جیسے چڑیا گھونسلے سے سکڑ کر نکلتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم سب عقبہ میں جمع ہوگئے۔ ہماری کل تعداد پچھتّر تھی۔ تہتر مرد اور دو عورتیں ایک ام عمارہ نسیبہ بنت کعب تھیں۔ جو قبیلہ بنومازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری ام منیع اسماء بنت عمرو تھیں۔ جن کا تعلق قبیلہ بنوسلمہ سے تھا۔
ہم سب گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہﷺ کا انتظار کر نے لگے اور آخر وہ لمحہ آہی گیا جب آپ تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عبا س بن عبد المطلب بھی تھے۔ وہ اگر چہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر تھے مگر چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملہ میں موجود رہیں اور ان کے لیے پختہ اطمینان حاصل کرلیں۔ سب سے پہلے بات بھی انہیں نے شروع کی۔( ابن ہشام ۱/۴۴۰، ۴۴۱)
گفتگو کا آغاز اور حضرت عباس ؓ کی طرف سے معاملے کی نزاکت کی تشریح :
مجلس مکمل ہوگئی تو دینی اور فوجی تعاون کے عہد وپیمان کو قطعی اور آخری شکل دینے کے لیے گفتگو کا آغاز ہوا۔ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس نے سب سے پہلے زبان کھولی۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ پوری صراحت کے ساتھ اس ذمہ داری کی نزاکت واضح کردیں جو اس عہد وپیمان کے نتیجے میں ان حضرات کے سر پڑنے والی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کہا:
خزرج کے لوگو ! عام اہل ِ عرب انصار کے دونوں ہی قبیلے، یعنی خزرج اور اوس کو خزرج ہی کہتے تھے - ہمارے اندر محمدﷺ کی جو حیثیت ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہماری قوم کے جو لوگ دینی نقطۂ نظر سے ہمارے ہی جیسی رائے رکھتے ہیں۔ ہم نے محمدﷺ کو ان سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں قوت وعزت اور طاقت وحفاظت کے اندر ہیں۔ مگر اب وہ تمہارے یہاں جانے اور تمہارے ساتھ لاحق ہونے پر مصر ہیں۔ لہٰذا اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم انہیں جس چیز کی طرف بلا رہے ہو اسے نبھالو گے اور انہیں ان کے مخالفین سے بچالو گے تب تو ٹھیک ہے۔ تم نے جو ذمے داری اٹھائی ہے اسے تم جانو لیکن اگر تمہارایہ اندازہ ہے کہ تم انہیں اپنے پاس لے جانے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑ کر کنارہ کش ہوجاؤ گے تو پھر ابھی سے انہیں چھوڑ دو۔ کیونکہ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں بہر حال عزت وحفاظت سے ہیں۔
حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عباس ؓ سے کہا کہ آپ کی بات ہم نے سن لی۔ اب اے اللہ کے رسول ! آپ گفتگو فرمائیے اور اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے جو عہد وپیمان پسند کریں۔ (ابن ہشام ۱/۴۴۱ ، ۴۴۲)
اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم ذمے داری کو اٹھا نے اور اس پر خطر نتائج کو جھیلنے کے سلسلے میں انصارکے عزمِ محکم ، شجاعت وایمان اور جوش واخلاص کا کیا حال تھا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے گفتگو فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قرآن کی تلاوت کی، اللہ کی طرف دعوت دی اور اسلام کی ترغیب دی، اس کے بعد بیعت ہوئی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔