Friday, 20 March 2015

دعوت کا تیسرا مرحلہ - مکہ سے باہر دعوت


قریش سے مایوس ہوکر آپ ﷺ بیرون مکہ بھی دعوت کا سلسلہ شروع کیا ، طائف کا سفر اس سلسلے کا پہلا سفر تھا لیکن وہاں سے بھی مایوسی ہوئی ۔ طائف سے واپسی پر وادی ٔ نخلہ میں جافروکش ہوئے۔ وادیٔ نخلہ میں آپﷺ کا قیام چند دن رہا۔ یہاں آپ کی جنوں کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید میں دوجگہ آیا ہے۔ ایک سورۃ الاحقاف میں ، دوسرے سورہ ٔ جن میں ، سورۃ الاحقاف کی آیات یہ ہیں :
وَإِذْ صَرَ‌فْنَا إِلَيْكَ نَفَرً‌ا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْ‌آنَ فَلَمَّا حَضَرُ‌وهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِ‌ينَ ﴿٢٩﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِ‌يقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٣٠﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْ‌كُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣١﴾ (۴۶: ۲۹ - ۳۱ )
'' اور جب کہ ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیر اکہ وہ قرآن سنیں تو جب وہ( تلاوت) قرآن کی جگہ پہنچے توانہوں نے آپس میں کہا: چپ ہوجاؤ۔ پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جاچکی تووہ اپنی قوم کی طرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے۔ اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔اے ہماری قوم ! اللہ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔''
سورۂ جن کی یہ آیات ہیں :
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ‌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْ‌آنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّ‌شْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِ‌كَ بِرَ‌بِّنَا أَحَدًا ﴿٢﴾ (۷۲: ۱، ۲)
''آپ کہہ دیں : میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور باہم کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں کر سکتے۔'' (پندرہویں آیت تک )
(صحیح بخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب الجہر بقراء صلاۃ الفجر ۱/۱۹۵)

یہ آیات جو اس واقعے کے بیان کے سلسلے میں نازل ہوئیں ان کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو ابتدائً جنوں کی اس جماعت کی آمد کا علم نہ ہوسکا تھا بلکہ جب ان آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو اطلاع دی گئی تب آپ واقف ہوسکے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی یہ آمد پہلی بار ہوئی تھی اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد ان کی آمد ورفت ہوتی رہی۔
جنوں کی آمد اور قبولِ اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسری مدد تھی۔ جو اس نے اپنے غیب ِ مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ، پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بیچ میں نبیﷺ کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی، چنانچہ ارشاد ہے :
وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّـهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (۴۶: ۳۲)
''جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہ کرے وہ زمین میں (اللہ کو ) بے بس نہیں کرسکتا ، اور اللہ کے سوا اس کا کوئی کار ساز ہے بھی نہیں اور ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔''
اس نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم والم اور حزن ومایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپﷺ پر چھائے تھے۔ آپﷺ نے عزم مصمم فرما لیا کہ اب مکہ پلٹنا ہے اور نئے سرے سے دعوتِ اسلام اور تبلیغ ِ رسالت کے کام میں چستی اور گرمجوشی کے ساتھ لگ جانا ہے۔ یہی موقع تھا جب حضرت زید بن حارثہؓ نے آپﷺ سے عرض کی کہ آپ مکہ کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں، یعنی قریش نے آپ کو نکال دیا ہے ؟ اور جواب میں آپﷺ نے فرمایا : اے زید ! تم جو حالت دیکھ رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا۔ اللہ یقینا اپنے دین کی مدد کر ے گا اور اپنے نبی کو غالب فرمائے گا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔