Friday, 20 March 2015

شاعر طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام


یہ سوجھ بوجھ کے مالک اور قبیلہ ٔ دوس کے سردار تھے۔ ان کے قبیلے کو بعض نواحی یمن میں امارت یا تقریبا ًامارت حاصل تھی۔ وہ نبوت کے گیارہویں سال مکہ تشریف لائے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ہی اہل مکہ نے ان کا استقبال کیا اور نہایت عزت واحترام سے پیش آئے۔ پھر ان سے عرض پرداز ہوئے کہ اے طفیل ! آپ ہمارے شہر تشریف لائے ہیں اور یہ شخص جو ہمارے درمیان ہے اس نے ہمیں سخت پیچیدگی میں پھنسا رکھا ہے۔ ہماری جمعیت بکھیر دی ہے اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے۔ اس کی بات جادو کاسا اثر رکھتی ہے کہ آدمی اور اس کے باپ کے درمیان اور آدمی اس کے بھائی کے درمیا ن اور آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیتی ہے۔ ہمیں ڈرلگتا ہے کہ جس افتاد سے ہم دوچار ہیں کہیں وہ آپ پر اور آپ کی قوم پر بھی نہ آن پڑے۔ لہٰذا آپ اس سے ہرگز گفتگو نہ کریں اور اس کی کوئی چیز نہ سنیں۔
حضرت طفیل ؓ کا ارشاد ہے کہ یہ لوگ مجھے برابر اسی طرح کی باتیں سمجھاتے رہے یہاں تک کہ میں تہیہ نے کرلیاکہ نہ آپ کی کوئی چیز سنوں گا نہ آپﷺ سے بات چیت کروں گا۔ حتیٰ کہ جب میں صبح کو مسجد حرام گیا تو کان میں روئی ٹھونس رکھی تھی کہ مبادا آپﷺ کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے ، لیکن اللہ کومنظور تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض باتیں مجھے سنا ہی دے۔ چنانچہ میں نے بڑا عمدہ کلام سنا، پھر میں نے اپنے جی میں کہا: ہائے مجھ پر میری ماں کی آہ وفغاں ! میں تو واللہ! ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا شاعر آدمی ہوں ، مجھ پر بھلا برا چھپا نہیں رہ سکتا ، پھر کیوں نہ میں اس شخص کی بات سنوں؟اگر اچھی ہوئی تو قبول کرلوں گا، بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا۔ یہ سوچ کر میں رک گیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر پلٹے تو میں بھی پیچھے ہولیا۔ آپﷺ اندر داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آمد کا واقعہ اور لوگوں کے خوف دلانے کی کیفیت ، پھر کان میں روئی ٹھونسنے ، اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن لینے کی تفصیلات بتائیں۔ پھر عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات پیش کیجیے۔ آپﷺ نے مجھ پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔ اللہ گواہ ہے میں نے اس سے عمدہ قول اور اس سے زیادہ انصاف کی بات کبھی نہ سنی تھی۔ چنانچہ میںنے وہیں اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی۔ اس کے بعد آپﷺ سے عرض کیا کہ میری قوم میں میری بات مانی جاتی ہے میں ان کے پاس پلٹ کرجاؤں گا اور انہیں اسلام کی دعوت دوں گا۔ لہٰذا آپﷺ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے کوئی نشانی دے دے، آپﷺ نے دعا فرمائی۔
حضرت طفیل کو جو نشانی عطا ہوئی وہ یہ تھی کہ جب وہ اپنی قوم کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے چہرے پر چراغ جیسی روشنی پیدا کردی۔ انہوں نے کہا : یا اللہ ! چہرے کے بجائے کسی اور جگہ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسے مثلہ کہیں گے، چنانچہ یہ روشنی ان کے ڈنڈے میں پلٹ گئی۔ پھر انہوں نے اپنے والد اور اپنی بیوی کو اسلام کی دعوت دی اور وہ دونوںمسلمان ہوگئے ، لیکن قبیلہ والوں نے ان کی بات نہ سنی تو حضورﷺ کے پاس آکر کہا کہ ان کے لئے بد دعا فرمائیے، لیکن حضورﷺ نے بجائے بد دعا کے یہ دعا کی کہ: اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے ، حضور ﷺ کی دعا کا اثر یہ ہوا کہ پورے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا اور غزوہ ٔ طائف کے موقع پر پورا قبیلہ دوس حاضر تھا، ان ہی میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی تھے جن کی قسمت میں امام المحدثین بننا تھا، حضرت طفیلؓ حضو ر ﷺ کے وصال تک مدینہ میں رہے اور ۱۱ ہجری میں مسیلمہ بن کذّاب کے خلاف لڑتے ہوئے یمامہ میں شہید ہوئے ۔ ۔( ابن ہشام ۱/۱۸۲ ، ۱۸۵)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔