جیسا کہ پہلے گزر چکا نبوت کے گیارہویں سال موسم ِ حج میں یثرب کے چھ آدمیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور رسول اللہﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ اپنی قوم میں جاکر آپﷺ کی رسالت کی تبلیغ کریں گے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے سال موسمِ حج آیا ( یعنی ذی الحجہ ۱۲ نبوی، مطابق جولائی ۶۲۱ء ) تو بارہ آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں حضرت جابر بن عبد اللہ بن رئاب کو چھوڑ کر باقی پانچ وہی تھے جو پچھلے سال بھی آچکے تھے اور ان کے علاوہ سات آدمی نئے تھے۔ جن کے نام یہ ہیں :
1 معاذ بن الحارث ، ابن عفراء قبیلۂ بنی النجار (خزرج)
2 ذکوان بن عبد القیس ؍؍ بنی زریق ( ؍؍ )
3 عباد ہ بن صامت ؍؍ بنی غنم (؍؍ )
4 یزید بن ثعلبہ ؍؍ بنی غنم کے حلیف (؍؍ )
5 عباس بن عبادہ بن نضلہ ؍؍ بنی سالم (؍؍ )
6 ابوالہیثم بن التیہان ؍؍ بنی عبد الاشہل (اوس)
7 عویم بن ساعدہ ؍؍ بنی عمرو بن عوف (؍؍)
ان میں صرف اخیر کے دوآدمی قبیلۂ اوس سے تھے۔ بقیہ سب کے سب قبیلۂ خزرج سے تھے۔( ابن ہشام ۱/۴۳۱تا ۴۳۳)
ان لوگوں نے رسول اللہﷺ سے منیٰ میں عقبہ کے پاس ملاقات کی اور آپﷺ سے چند باتوں پر بیعت کی۔ یہ باتیں وہی تھیں جن پر آئندہ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے وقت عورتوں سے بیعت لی گئی۔
عقبہ (ع ، ق، ب تینوں کو زبر ) پہاڑ کی گھاٹی، یعنی تنگ پہاڑی گزرگاہ کو کہتے ہیں۔ مکہ سے منیٰ آتے جاتے ہوئے منیٰ کے مغربی کنارے پر ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہی گزرگاہ عَقَبَہ کے نام سے مشہور ہے۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جس ایک جمرہ کو کنکری ماری جاتی ہے وہ اسی گزرگاہ کے سرے پر واقع ہے اس لیے اِسے جمرہ ٔ عقبہ کہتے ہیں۔اس جمرہ کا دوسرا نام جمرہ کبریٰ بھی ہے۔ باقی دو جمرے اس سے مشرق میں تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں۔ چونکہ منیٰ کا پورا میدان ، جہاں حجاج قیام کرتے ہیں۔ ان تینوں جمرات کے مشرق میں ہے۔ اس لیے ساری چہل پہل ادھر ہی رہتی ہے اور کنکریاں مارنے کے بعد اس طرف لوگوں کی آمد ورفت کا سلسلہ ختم ہوجاتا تھا۔ اسی لیے نبیﷺ نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی کو منتخب کیا اور اسی مناسبت سے اس کو بیعت عقبہ کہتے ہیں۔ اب پہاڑ کاٹ کر یہاں کشادہ سڑکیں نکال لی گئی ہیں۔
عَقَبَہ کی اس بیعت کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
آؤ! مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ کروگے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر کوئی بہتان نہ لاؤ گے اور کسی بھلی بات میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ جو شخص یہ ساری باتیں پوری کرے گا اس کا اجر اللہ پر ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا پھر اسے دنیا ہی میں اس کی سزادے دی جائے گی تویہ اس کے لیے کفارہ ہوگی اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر بیٹھے گا۔ پھر اللہ اس پر پردہ ڈال دے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ چاہے گا تو سزادے گا اور چاہے گا تو معاف کردے گا۔ حضرت عبادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس پر آپﷺ سے بیعت کی۔
(صحیح بخاری ، باب بعد باب حلاوۃ الایمان ۱/۷ ، باب وفود الانصار ۱/۵۵۰ ، ۵۵۱،(لفظ اسی با ب کا ہے ) باب قولہ تعالیٰ اذا جاء ک المؤمنات ۲/۷۲۷ ، باب الحدود کفارۃ ۲/۱۰۰۳ )
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔