اسکے بعد اللہ جبار جل جلالہ کے دربار میں پہنچایا گیا اور آپﷺ اللہ کے اتنے قریب ہوئے کہ دوکمان کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت اللہ نے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو کچھ کہ وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ اس کے بعد آپﷺ واپس ہوئے یہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپﷺ کو کس چیز کا حکم دیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: پچاس نمازوں کا ، انہوں نے کہا :آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ اپنے پروردگار کے پاس واپس جایئے ، اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجیے۔ آپﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا گویا ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آپﷺ کو جبار تبار ک و تعالیٰ کے حضور لے گئے ، اور وہ اپنی جگہ تھا ...بعض طرق میں صحیح بخاری کا لفظ یہی ہے ...اس نے دس نمازیں کم کردیں اور آپﷺ نیچے لائے گئے۔ جب موسی ٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا تو انہیں خبر دی۔ انہوں نے کہا: آپﷺ اپنے رب کے پاس واپس جائیے اور تخفیف کا سوال کیجیے۔ اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ عزوجل کے درمیان آپﷺ کی آمد ورفت برابر جاری رہی۔ یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے صرف پانچ نمازیں باقی رکھیں اس کے بعد بھی موسیٰ علیہ السلام نے آپﷺ کوواپسی اور طلب تخفیف کا مشور ہ دیا۔ مگر آپﷺ نے فرمایا: اب مجھے اپنے رب سے شرم محسوس ہورہی ہے۔ میں اسی پر راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ پھرجب آپﷺ مزید کچھ دور تشریف لے گئے تو ندا آئی کہ میں نے اپنا فریضہ نافذ کردیا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔ (زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ صحیح روایات میں ثابت شدہ اضافات کے ساتھ)
اس کے بعد ابن قیمؒ نے اس بارے میں اختلاف ذکر کیا ہے کہ نبیﷺ نے اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا یا نہیں؟پھر امام ابن تیمیہؒ کی ایک تحقیق ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے کا سرے سے کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی صحابی اس کا قائل ہے اور ابن عباس سے مطلقاً دیکھنے اور دل سے دیکھنے کے جو دوقول منقول ہیں۔ ان میں سے پہلا دوسرے کے منافی نہیں اس کے بعد امام ابن قیم لکھتے ہیں کہ سور ہ ٔ نجم میں اللہ تعالیٰ کا جویہ ارشاد ہے :
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (۵۳: ۸)
''پھر وہ نزدیک آیا اور قریب تر ہوگیا ''
تو یہ اس قربت کے علاوہ ہے جو معراج کے واقعے میں حاصل ہوئی تھی کیونکہ سورۂ نجم میں جس قربت کا ذکر ہے اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام کی قربت وتَدَلّی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ اور ابن مسعودؓ نے فرمایا ہے اور سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف حدیث معراج میں جس قربت وتدلّی کا ذکر ہے۔اس کے بارے میں صراحت ہے کہ یہ رب تبارک وتعالیٰ سے قربت وتدلّی تھی اور سورہ ٔ نجم میں اس کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا ہے۔ بلکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپﷺ نے انہیں دوسری بار سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ، اور یہ حضرت جبریل ؑ تھے۔ انہیں محمدﷺ نے ان کی اپنی شکل میں دومرتبہ دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ زمین پر اور ایک مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ واللہ اعلم
(زاد المعاد ۲/۴۷، ۴۸۔ نیز دیکھئے: صحیح بخاری۔ ۱/۵۰ ، ۴۵۵ ، ۴۵۶ ، ۴۷۰ ، ۴۷۱، ۴۸۱، ۵۴۸،۵۴۹ ، ۵۵۰،۲/۶۸۴ صحیح مسلم ۱/۹۱، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۹۶)
بعض طرق میں آیا ہے کہ اس دفعہ بھی نبیﷺ کے ساتھ شق صدر (سینہ چاک کیے جانے ) کا واقعہ پیش آیا اور آپﷺ کو اس سفر کے دوران کئی چیز یں دکھلائی گئیں۔
آپﷺ پر دودھ اور شراب پیش کی گئی، آپﷺ نے دودھ اختیار فرمایا۔ اس پر آپﷺ سے کہا گیا کہ آپﷺ کو فطرت کی راہ بتائی گئی ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت پالی اور یا درکھئے کہ اگر آپﷺ نے شراب لی ہوتی تو آپﷺ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
آپﷺ نے جنت میں چار نہریں دیکھیں۔ دوظاہری اور دوباطنی ، ظاہری نہریں نیل وفرات تھیں۔یعنی ان کا عنصر تھا اور باطنی دونہریں جنت کی دونہریں ہیں۔ (نیل وفرات دیکھنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آپﷺ کی رسالت نیل وفرات کی شاداب وادیوں کو اپنا وطن بنائے گی۔ واللہ اعلم )
آپﷺ نے مالک ، داروغۂ جہنم کو بھی دیکھا، وہ ہنستا نہ تھا اور نہ اس کے چہرے پر خوشی اور بشاشت تھی ، آپﷺ نے جنت وجہنم بھی دیکھی۔
آپﷺ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں۔ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح تھے اور وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوں جیسے انگا رے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب ان کے پاخانے کے راستے نکل رہے تھے۔
آپﷺ نے سود خوروں کوبھی دیکھا۔ ان کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے کہ وہ اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتے تھے اور جب آلِ فرعون کو آگ پر پیش کر نے کے لیے لے جایا جاتا تو ان کے پاس سے گزرتے وقت انہیں روندتے ہوئے جاتے تھے۔
آپﷺ نے زنا کا روں کو بھی دیکھا۔ ان کے سامنے تازہ اور فربہ گوشت تھا اور اسی کے پہلو بہ پہلو سڑا ہوا چھیچھڑا بھی تھا۔ یہ لوگ تازہ اور فربہ گوشت چھوڑ کر سڑا ہوا چھیچھڑا کھا رہے تھے۔
آپﷺ نے ان عورتوں کو دیکھا جو اپنے شوہر وں پر دوسروں کی اولاد داخل کر دیتی ہیں۔ (یعنی دوسروں سے زنا کے ذریعے حاملہ ہوتی ہیں ، لیکن لاعلمی کی وجہ سے بچہ ان کے شوہر کا سمجھا جاتا ہے ) آپﷺ نے انہیں دیکھا کہ ان کے سینوں میں بڑ ے بڑے ٹیڑھے کا نٹے چبھا کر انہیں آسمان وزمین کے درمیان لٹکا دیا گیا ہے۔
آپﷺ نے آتے جاتے ہوئے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ بھی دیکھا اور انہیں ان کا ایک اونٹ بھی بتایا جو بھڑک کر بھاگ گیا تھا۔ آپﷺ نے ان کا پانی بھی پیا جو ایک ڈھکے ہوئے برتن میں رکھا تھا۔ اس وقت قافلہ سورہا تھا، پھر آپﷺ نے اسی طرح برتن ڈھک کر چھوڑ دیا اور یہ بات معراج کی صبح آپﷺ کے دعویٰ کی صداقت کی ایک دلیل ثابت ہوئی۔
(سابقہ حوالے۔ نیز ابن ہشام ۱/۳۹۷ ، ۴۰۲ -۴۰۶ اور کتب تفاسیر ، تفسیر سورۂ اسراء )
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔