معاہدہ مکمل ہوچکا تھا اور اب لوگ بکھرنے ہی والے تھے کہ ایک شیطان کو اس کا پتہ لگ گیا۔ چونکہ یہ انکشاف بالکل آخری لمحات میں ہوا تھا اور اتنا موقع نہ تھا کہ یہ خبر چپکے سے قریش کو پہنچادی جائے، اور وہ اچانک اس اجتماع کے شرکاء ٹوٹ پڑیں ، اور انہیں گھاٹی ہی میں جالیں۔ اس لیے شیطان نے جھٹ ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر نہایت بلند آواز سے ، جو شاید ہی کبھی سنی گئی ہو ، یہ پکارلگائی : خیمے والو! محمد (ﷺ ) کو دیکھو۔ اس وقت بددین اس کے ساتھ ہیں اور تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : یہ اس گھاٹی کا شیطان ہے۔ او اللہ کے دشمن ! سن ، اب میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہورہا ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ اپنے ڈیروں پر چلے جائیں۔3
اس شیطان کی آواز سن کر حضرت عباس عبادہ بن نضلہؓ نے فر مایا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، آپ چاہیں تو ہم کل اہل منیٰ پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ آپ نے فرمایا :
ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ بس آپ لوگ اپنے ڈیروں میں چلے جائیں۔ اس کے بعد لوگ واپس جاکر سو گئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔( ابن ہشام ۱/۴۴۸):
یہ خبر قریش کے کانوں تک پہنچی تو غم والم کی شدت سے ان کے اندر کہرام مچ گیا۔ کیونکہ اس جیسی بیعت کے جو نتائج ان کی جان ومال پر مرتب ہوسکتے تھے اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی ان کے رؤساء اور اکابر مجرمین کے ایک بھاری بھرکم وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کے لیے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا ، اور یوں عرض پرداز ہوا۔
خزرج کے لوگو! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ ہمارے اس صاحب کو ہمارے درمیان سے نکال لے جانے کے لیے آئے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں۔ حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمارے لیے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔( ایضاً ۱/۴۴۸)
لیکن چونکہ مشرکین خزرج اس بیعت کے بارے میں سرے سے کچھ جانتے ہی نہ تھے ، کیونکہ یہ مکمل راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی اس لیے ان مشرکین نے اللہ کی قسم کھا کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ہم اس طرح کی کوئی بات سرے سے جانتے ہیں نہیں۔ بالآخر یہ وفد عبد اللہ بن اُبی ابن سلول کے پاس پہنچا۔ وہ بھی کہنے لگا یہ باطل ہے۔ ایسا نہیں ہوا ہے ، اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میری قوم مجھے چھوڑ کر اس طرح کاکام کرڈالے۔ اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی مجھ سے مشورہ کیے بغیر میری قوم ایسا نہ کرتی۔
باقی رہے مسلمان تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اورچپ سادھ لی۔ ان میں سے کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان ہی نہیں کھولی۔ آخر رؤساء قریش کا رجحان یہ رہا کہ مشرکین کی بات سچ ہے، اس لیے وہ نامراد واپس چلے گئے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔