جس طرح رسول اللہﷺ نے قبائل اور وفود پر اسلام پیش کیا ، اسی طرح افراد اور اشخاص کو بھی اسلام کی دعوت دی، اور بعض نے اچھا جواب بھی دیا۔ پھر اس موسم حج کے کچھ ہی عرصے بعد کئی افراد نے اسلام قبول کیا۔ ذیل میں ان کی مختصر روداد پیش کی جارہی ہے :
سوید بن صامت
:... یہ شاعر تھے۔ گہری سوجھ بوجھ کے حامل اور یثرب کے باشندے ، ان کی پختگی ، شعر گوئی اور شرف ونسب کی وجہ سے ان کی قوم نے انہیں کامل کا خطاب دے رکھا تھا۔ یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے، رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ کہنے لگے : غالباً آپ(ﷺ ) کے پاس جو کچھ ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا میرے پاس ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس کیا ہے ؟ سوید نے کہا : حکمتِ لقمان۔ آپﷺ نے فرمایا :پیش کرو۔ انہوں نے پیش کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ کلا م یقینا اچھا ہے ، لیکن میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے بھی اچھا ہے۔ وہ قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا ہے۔ وہ ہدایت اور نور ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور بولے : یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے۔ اس کے بعد وہ مدینہ پلٹ کر آئے ہی تھے کہ جنگ بُعاث سے قبل اوس وخزرج کی ایک جنگ میں قتل کر دیئے گئے۔ اغلب یہ ہے کہ انہوں نے ۱۱ نبو ی کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا۔
(الاستیعاب ۲/۶۷۷ ، اسد الغابہ ۲/۳۳۷)
ایاس بن معاذ : ...
یہ بھی یثرب کے باشندے تھے اور نوخیز جوان ۱۱ نبوت میں جنگ بُعاث سے کچھ پہلے اوس کا ایک وفد خزرج کے خلاف قریش سے حلف وتعاون کی تلاش میں مکہ آیا تھا۔ آپ بھی اسی کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت یثرب میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان عداوت کی آگ بھڑ ک رہی تھی اور اوس کی تعداد خزرج سے کم تھی۔ رسول اللہﷺ کو وفد کی آمد کا علم ہوا تو آپﷺ ان کے پا س تشریف لے گئے اور ان کے درمیان بیٹھ کو یوں خطاب فرمایا : آپ لوگ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں کیا اس سے بہتر چیز قبول کرسکتے ہیں ؟ ان سب کہا: وہ کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس بات کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اللہ عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتا ب بھی اتاری ہے، پھر آپﷺ نے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔
ایاس بن معاذ بولے : اے قوم یہ اللہ کی قسم! اس سے بہتر ہے جس کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے ہیں، لیکن وفد کے ایک رکن ابو الحسیر انس بن رافع نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور بولا: یہ چھوڑو ! میری عمر کی قسم ! یہاں ہم اس کے بجائے دوسرے ہی مقصد سے آئے ہیں۔ ایاس نے خاموشی اختیار کر لی اور رسول اللہﷺ بھی اٹھ گئے۔ وفد قریش کے ساتھ حلف وتعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور یوں ہی ناکام مدینہ واپس ہوگیا۔
مدینہ پلٹنے کے تھوڑے ہی دن بعد ایاس انتقال کر گئے۔ وہ اپنی وفات کے وقت تہلیل وتکبیر اور حمد وتسبیح کر رہے تھے، اس لیے لوگوں کو یقین ہے کہ ان کی وفات اسلام پر ہوئی۔( ابن ہشام ۱/۴۲۷ ، ۴۲۸ ، مسند احمد ۵/۴۲۷)
ضماد ازدی :...
یہ یمن کے باشندے تھے اور قبیلہ ازد شنوء ہ کے ایک فرد تھے۔جھاڑ پھونک کرنا اور آسیب اتارنا ان کا کام تھا۔ مکہ آئے تو وہاں کے احمقوں سے سنا کہ محمدﷺ پاگل ہیں۔ سوچا کیوں نہ اس شخص کے پاس چلوں ہوسکتا ہے اللہ میرے ہی ہاتھوں سے اسے شفا دے دے۔ چنانچہ آپﷺ سے ملاقات کی ، اور کہا : اے محمد! (ﷺ ) میں آسیب اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا ہوں، کیا آپ(ﷺ ) کو بھی اس کی ضرورت ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا :
(( إن الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ، من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ، ومن یضللہ فلا ہادی لہ ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ، أما بعد۔))
''یقینا ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد(ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اما بعد ! ''
ضماد نے کہا: ذرا اپنے یہ کلمات مجھے پھر سنا دیجیے۔ آپﷺ نے تین بار دہرایا، اس کے بعد ضماد نے کہا : میں کاہنوں ، جادوگروں اور شاعر وں کی بات سن چکا ہوں لیکن میں نے آپ (ﷺ ) کے ان جیسے کلمات کہیں نہیں سنے۔ یہ تو سمندر کی اتھاہ گہرائی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ لائیے ! اپنا ہاتھ بڑھایئے ! آپ (ﷺ ) سے اسلام پر بیعت کروں اور اس کے بعد انہوں نے بیعت کرلی۔
( صحیح مسلم ، مشکاۃ المصابیح باب علامات النبوۃ ۲/۵۲۵)
سوید بن صامت
:... یہ شاعر تھے۔ گہری سوجھ بوجھ کے حامل اور یثرب کے باشندے ، ان کی پختگی ، شعر گوئی اور شرف ونسب کی وجہ سے ان کی قوم نے انہیں کامل کا خطاب دے رکھا تھا۔ یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے، رسول اللہﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ کہنے لگے : غالباً آپ(ﷺ ) کے پاس جو کچھ ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا میرے پاس ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس کیا ہے ؟ سوید نے کہا : حکمتِ لقمان۔ آپﷺ نے فرمایا :پیش کرو۔ انہوں نے پیش کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ کلا م یقینا اچھا ہے ، لیکن میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے بھی اچھا ہے۔ وہ قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا ہے۔ وہ ہدایت اور نور ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور بولے : یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے۔ اس کے بعد وہ مدینہ پلٹ کر آئے ہی تھے کہ جنگ بُعاث سے قبل اوس وخزرج کی ایک جنگ میں قتل کر دیئے گئے۔ اغلب یہ ہے کہ انہوں نے ۱۱ نبو ی کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا۔
(الاستیعاب ۲/۶۷۷ ، اسد الغابہ ۲/۳۳۷)
ایاس بن معاذ : ...
یہ بھی یثرب کے باشندے تھے اور نوخیز جوان ۱۱ نبوت میں جنگ بُعاث سے کچھ پہلے اوس کا ایک وفد خزرج کے خلاف قریش سے حلف وتعاون کی تلاش میں مکہ آیا تھا۔ آپ بھی اسی کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت یثرب میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان عداوت کی آگ بھڑ ک رہی تھی اور اوس کی تعداد خزرج سے کم تھی۔ رسول اللہﷺ کو وفد کی آمد کا علم ہوا تو آپﷺ ان کے پا س تشریف لے گئے اور ان کے درمیان بیٹھ کو یوں خطاب فرمایا : آپ لوگ جس مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں کیا اس سے بہتر چیز قبول کرسکتے ہیں ؟ ان سب کہا: وہ کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس اس بات کی دعوت دینے کے لیے بھیجا ہے کہ وہ اللہ عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں۔ اللہ نے مجھ پر کتا ب بھی اتاری ہے، پھر آپﷺ نے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت فرمائی۔
ایاس بن معاذ بولے : اے قوم یہ اللہ کی قسم! اس سے بہتر ہے جس کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے ہیں، لیکن وفد کے ایک رکن ابو الحسیر انس بن رافع نے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور بولا: یہ چھوڑو ! میری عمر کی قسم ! یہاں ہم اس کے بجائے دوسرے ہی مقصد سے آئے ہیں۔ ایاس نے خاموشی اختیار کر لی اور رسول اللہﷺ بھی اٹھ گئے۔ وفد قریش کے ساتھ حلف وتعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور یوں ہی ناکام مدینہ واپس ہوگیا۔
مدینہ پلٹنے کے تھوڑے ہی دن بعد ایاس انتقال کر گئے۔ وہ اپنی وفات کے وقت تہلیل وتکبیر اور حمد وتسبیح کر رہے تھے، اس لیے لوگوں کو یقین ہے کہ ان کی وفات اسلام پر ہوئی۔( ابن ہشام ۱/۴۲۷ ، ۴۲۸ ، مسند احمد ۵/۴۲۷)
ضماد ازدی :...
یہ یمن کے باشندے تھے اور قبیلہ ازد شنوء ہ کے ایک فرد تھے۔جھاڑ پھونک کرنا اور آسیب اتارنا ان کا کام تھا۔ مکہ آئے تو وہاں کے احمقوں سے سنا کہ محمدﷺ پاگل ہیں۔ سوچا کیوں نہ اس شخص کے پاس چلوں ہوسکتا ہے اللہ میرے ہی ہاتھوں سے اسے شفا دے دے۔ چنانچہ آپﷺ سے ملاقات کی ، اور کہا : اے محمد! (ﷺ ) میں آسیب اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کیا کرتا ہوں، کیا آپ(ﷺ ) کو بھی اس کی ضرورت ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا :
(( إن الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ، من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ، ومن یضللہ فلا ہادی لہ ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ، أما بعد۔))
''یقینا ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ بھٹکا دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد(ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اما بعد ! ''
ضماد نے کہا: ذرا اپنے یہ کلمات مجھے پھر سنا دیجیے۔ آپﷺ نے تین بار دہرایا، اس کے بعد ضماد نے کہا : میں کاہنوں ، جادوگروں اور شاعر وں کی بات سن چکا ہوں لیکن میں نے آپ (ﷺ ) کے ان جیسے کلمات کہیں نہیں سنے۔ یہ تو سمندر کی اتھاہ گہرائی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ لائیے ! اپنا ہاتھ بڑھایئے ! آپ (ﷺ ) سے اسلام پر بیعت کروں اور اس کے بعد انہوں نے بیعت کرلی۔
( صحیح مسلم ، مشکاۃ المصابیح باب علامات النبوۃ ۲/۵۲۵)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔