مکہ والوں سے نا امید ہوکر آپ نے طائف کا قصد کیا تھا،وہاں والوں نے مکہ والوں سے بھی بدتر نمونہ دکھایا،مکہ والوں کی نفرت اورضد دم بدم ترقی پزیر تھی اوران کی شرارتیں اپنی کیفیت اورکمیت میں پہلے سے زیادہ اور سخت ہوتی جاتی تھیں،مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمت نہیں ہاری، طائف سے واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن قبائل میں جو مکہ کے ارد گرد تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے تھے برابر جاتے اورتبلیغ اسلام فرماتے رہے؛
چنانچہ قبیلہ بنو کندہ اورقبیلہ بنو عبداللہ کی اقامت گاہوں میں پہنچے بنو عبداللہ سے آپ نے فرمایا اے بنو عبداللہ! تمہارا باپ عبداللہ تھا،تم بھی اسم با مسمیٰ یعنی اللہ کے بندے بن جاؤ،قبیلہ بنو حنیفہ کی بستی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے اُن ظالموں نے سارے عرب میں سب سے زیادہ نالائق طریق پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا۔
باہر سے جو مسافر مکہ میں آتے یا ایام حج میں دور دراز مقامات کے قافلے آتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس چلے جاتے اورتبلیغ اسلام فرماتے،مگر ابو لہب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں خاص کد تھی،وہ ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا ہوا پہنچ جاتا اورمسافروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے سے روکتا،بنو عامر، بنو شیبان،بنوکلب،بنومحارب، فزارہ،غسان،سلیم،عبس،حارث،عذرہ،ذھل،مرہ وغیرہ قبائل کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ اسلام دی۔
جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عامر کے سامنے اسلام پیش کیا تو ان میں سے ایک شخص فراس نامی نے کہا کہ اگر ہم مسلمان ہوجائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو تو کیا تم اپنے بعد ہم کو اپنا خلیفہ بناؤ گے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کام تو خدائے تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جس کو چاہے گا وہی میرا خلیفہ ہوجائے گا،یہ سُن کر اس شخص نے کہا کہ کیا خوب ! اس وقت تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع وحامی بن کر اپنی گردنیں کٹوائیں اورجب تم کامیاب ہوجاؤ تو دوسرے لوگ حکومت کا مزا اُڑائیں جاؤ ہم کو تمہاری ضرورت نہیں۔
(ابن سعد ۲/۲۱۶)
واضح رہے کہ ان ذکر کردہ ان سارے قبائل پر ایک ہی سال یا ایک ہی موسم حج میں اسلام پیش نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ نبوت کے چوتھے سال سے ہجرت سے پہلے کے آخری موسم حج تک دس سالہ مدت کے دوران پیش کیا گیا تھا اور کسی معین سال میں کسی معین قبیلے پر اسلام کی پیشی کی تعیین نہیں ہوسکتی، البتہ بیشتر قبائل کے پاس آپ دسویں سال تشریف لے گئے۔
جب قبیلہ بنو عامر اپنے علاقے میں واپس گیا تو اپنے ایک بوڑھے آدمی کو...جو کبر سنی کے باعث حج میں شریک نہ ہوسکا تھا...سارا ماجرا سنایا اور بتایا کہ ہمارے پاس قبیلۂ قریش کے خاندان بنوعبد المطلب کا ایک جوان آیا تھا جس کا خیال تھا کہ وہ نبی ہے۔ اس نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اس کی حفاظت کریں، اس کا ساتھ دیں اور اپنے علاقے میں لے آئیں۔ یہ سن کر اس بڈھے نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا اور بولا : اے بنو عامر ! کیا اب اس کی تلافی کی کوئی سبیل ہے ؟ اور کیا اس ازدست رفتہ کو ڈھونڈھا جاسکتا ہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں فلاں کی جان ہے! کسی اسماعیلی نے کبھی اس (نبوت ) کا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا ،یہ یقینا حق ہے، آخر تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی ؟
(ابن ہشام ۱/۴۲۴، ۴۲۵)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔