Thursday 19 May 2016

حضرت ابوبلر و عمر رضی اللہ عنھما کی کیفیت


وفات کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کے ہوش جاتے رہے۔ انہوں نے کھڑے ہوکر کہنا شروع کیا : کچھ منافقین سمجھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات نہیں ہوئی، بلکہ آپﷺ اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ جس طرح موسیٰ بن عمران علیہ السلام تشریف لے گئے تھے۔ اور اپنی قوم سے چالیس رات غائب رہ کر ان کے پاس پھر واپس آگئے تھے۔ حالانکہ واپسی سے پہلے کہا جارہا تھا کہ وہ انتقال کرچکے ہیں۔
اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ بھی ضرور پلٹ کر آئیں گے۔ اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالیں گے جو سمجھتے ہیں کہ آپﷺ کی موت واقعہ ہوچکی ہے۔( ابن ہشام ۲/۶۵۵)

ادھر حضرت ابو بکرؓ سنح میں واقع اپنے مکان سے گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے۔ اور اُتر کر مسجد نبوی میں داخل ہوئے۔ پھر لوگوں سے کوئی بات کیے بغیر سیدھے حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے ، اور رسول اللہﷺ کا قصد فرمایا ، آپﷺ کا جسدِ مُبارک دھار دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے رُخ انو ر سے چادر ہٹائی۔ اور اسے چوما اور روئے۔ پھر فرمایا : میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ، اللہ آپﷺ پر دو موت جمع نہیں کرے گا۔ جو موت آپﷺ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپﷺ کو آچکی۔
اس کے بعد ابو بکرؓ باہر تشریف لائے۔ اس وقت بھی حضرت عمرؓ لوگوں سے بات کررہے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان سے کہا : عمر ! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمرؓ نے بیٹھنے سے انکار کردیا۔ ادھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عمرؓ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکرؓ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:
(( أما بعد : من کان منکم یعبد محمداًﷺ فإن محمداً قد مات ومن کان منکم یعبد اللہ فإن اللہ حي لایموت قال اللّٰہ:
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَ‌سُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ‌ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِ‌ينَ (۳: ۱۴۴)
''اما بعد ! تم میں سے جو شخص محمدﷺ کی پوجا کرتا تھا تو (وہ جان لے ) کہ محمدﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ کبھی نہیں مرے گا، اللہ کا ارشاد ہے۔ محمد(ﷺ ) نہیں ہیں مگر رسول ہی۔ ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذرچکے ہیں تو کیا اگر وہ (محمدﷺ ) مرجائیں یا ان کی موت واقع ہو جائے یا وہ قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اپنی ایڑ کے بل پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو شخص اپنی ایڑ کے بل پلٹ جائے تو (یاد رکھے کہ ) وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور عنقریب اللہ شکر کرنے والوں کو جزادے گا۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جواب تک فرطِ غم سے حیران وششدر تھے انہیں حضرت ابو بکرؓ کا یہ خطا ب سن کر یقین آگیا کہ رسول اللہﷺ واقعی رحلت فرماچکے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ واللہ ! ایسا لگتا تھا گویا لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے۔ یہاں تک کہ ابو بکرؓ نے اس کی تلاوت کی تو سارے لوگوں نے ان سے یہ آیت اخذ کی۔ اور اب جس کسی انسان کو میں سنتا تو وہ اسی کو تلاوت کررہا ہوتا۔
حضرت سعیدؓ بن مسیب کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا : واللہ ! میں نے جوں ہی ابو بکرؓ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا خاک آلود ہوکر رہ گیا۔ (یا میری پیٹھ ٹوٹ کر رہ گئی ) حتیٰ کہ میرے پاؤں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے اور حتیٰ کہ ابو بکر کو اس آیت کی تلاوت کرتے سن کر میں زمین کی طرف لڑھک گیا۔ کیونکہ میں جان گیا کہ واقعی نبیﷺ کی موت واقع ہوچکی ہے۔( صحیح بخاری ۲/۶۴۰، ۶۴۱)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔