“اس مسئلہ کے اٹھ کھڑا ہونے کی دیر تھی، بیشتر غیر مسلم ملکوں میں سیرتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرکتب دھڑا دھڑ فروخت ہوئیں اور وہاں کے اسلامی مراکز میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا تعارف پانے کیلئے منعقد نشستوں میں شریک لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ خود اہلِ اسلام کو سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علمی وعملی پہلوؤں کی جانب توجہ کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر محسوس ہوئی!
عین یہ موقعہ تھا جب سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے اس دور کے مناسب حال تصنیفات کی شدید کمی محسوس کی گئی اور اس پر کام کرنے والوں کو عمل کی ایک نئی مہمیز ملی! عین یہ موقعہ تھا جب ’نبوت‘ اور ’آسمانی صحیفے‘ اور ’ادیان‘ ایسے عنوان دنیا کے پڑھے لکھوں کے مابین پھر سے موضوعِ بحث بننے لگے، جس سے بعید نہیں خود بہت سے مسلمانوں نے اپنے نبی سے تعارف کا ایک از سر نو موقعہ پایا ہو۔ اس جدل کا، جو اب بہت دلچسپ ہوتی جارہی ہے، ہم بھی کچھ تذکرہ کریں گے۔
کچھ شقی دلوں پر خدا کی حجت قائم ہوتی نظر آئی۔
کیا کافر کیا مسلم، دنیا کا کوئی شخص ایسا نہ رہا ہوگا جس نے ذرائع ابلاغ کے اندر لڑی جانے والی اس جنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی ہر روز کئی بار نہ سنا ہو۔ کچھ تو ہوں گے جو یہ پوچھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہیں کون؟ کچھ تو ہوں گے __جو آپ کے بارے میں دریافت کرنے کیلئے__ آپ کا ٹھٹھہ کرنے والے شرپسندوں کی بجائے آپ پر ایمان رکھنے والے مصادر سے رجوع کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و وابستگی کی ایک تجدید نو اس موقعہ پر ہر صاحب ایمان کے حصہ میں آئی۔دشمن نے اس امت کی رگوں میں زندگی کی وہ رمق دیکھی جس کا وہ اپنی مریل قوموں میں تصور تک نہ کرسکے۔
امت کے ایک بڑے طبقے نے ”اللہ و رسول کیلئے دوستی اور اللہ و رسول کیلئے دشمنی“ کے عملی اسباق لئے۔ خود شناسی اور خودداری کی ایک نئی جہت برآمد ہوئی۔ خود کفیلی کی جانب اس امت کا طویل المیعاد سفر، جو ملٹی نیشنلز کے چاکلیٹوں اور سافٹ ڈرنکس کیلئے پائے جانے والے ’نخرے‘ اور ’منہ کے مزے‘ کے باعث ذہنوں کی دنیا تک میں معطل پڑا تھا، ایک نئی کروٹ لے کر شروع ہو۔۔ اور خدا کرے کہ اب یہ سفر آگے سے آگے بڑھے، جب تک کہ یہ امت اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو جاتی!
۔۔۔۔ بحران بھی آئیں تو اس امت کیلئے خیر ہی لاتے ہیں !
رسول اللہ ﷺ کے حق میں بولنا آدمی کے لئے ایک غیرمعمولی شرف ہے۔خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اندر آپ کی شان سے فروتر بات کرنے والے کو جواب آپ کی طرف سے نہیں بلکہ کسی امتی کی طرف سے ملتا تھا اور نہایت خوب مناسب جواب ملتا تھا۔ پھر آج تو یہ حق ہے ہی امت پر کہ وہ اپنے نبی کے اس مقام اور ناموس کا تحفظ کرے کہ کوئی بدزبان اس کو پہنچنے کی جسارت نہ کرے۔
’امتی‘ آخر ہیں کس لئے؟؟؟
یہ حسانؓ بن ثابت ہیں جو ابو سفیان کو جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔یہ ایک امتی ہے جو اپنے نبی کے حق میں بولنے کے لئے اٹھا ہے اور اس کا صلہ صرف اور صرف خدا کے ہاں پانے کا امیدوار ہے:
وَعِندَ اللّٰہِ فِی ذَاکَ الجَزَاء ھَجَوتَ مُحَمَّداً فَاجَبتُ عَنہُ
”تم نے محمد ﷺ کی تنقیص کی۔سنو اس کا جواب میں دیتا ہوں۔ اس پر میرا صلہ کسی کے دینے کا ہے تو وہ خدائے رب العالمین کی ذات ہے“
شاعر صلے اور داد کی طلب سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا۔یہ شاعر بھی ’صلے‘ سے بے فکر نہیں۔مگر ممدوح کی عظمت کا تقاضا ہے کہ داد پانے کے لئے خدائے رب العالمین سے کم کہیں نگاہ نہ ٹکے!
فَشَرّکُمَا لِخَیرِکُمَا الفِدَاء اتَھجُوہُ وَلَستَ لَہ بِکُفءٍ
”تم محمد ﷺ کے منہ آتے ہو۔ کیا تم ان کے برابر کوئی چیز ہو سہی؟ تم اور وہ، جو کمتر ہے وہی بہتر پر وارا جائے گا“
چاند پر تھوکنے والے کو ہمیشہ آئینہ دیکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اپنی یہ تصویر دیکھنا اس کا حق ہے:
اتھجوہ ولست لہ بکفءٍ!!!
تم میں اور ان میں کوئی نسبت بھی تو ہو۔۔۔۔!
اُس شخص کے بارے میں جو ڈیڑھ ہزار سال سے ایک آدھی دنیا کو خدائے وحدہ لاشریک کے آگے پوری بصیرت کے ساتھ سجدہ ریز کرانے کا ذریعہ بنا آیا ہے اور تہذیب انسانی پر جس کے نشاناتِ انگشت سب سے نمایاں ہیں اور مشرق تا مغرب ہر محقق کو اُس کی عظمت کے نئے سے نئے پہلو تلاش کرنے کی بابت تجسس دلاتے ہیں اس برگزیدہ ہستی کی بابت تم جو ہرزہ سرائی کرنے جارہے ہو تمہاری ان کے سامنے کوئی اوقات بھی تو ہو!
ایک ایسے ماحول سے اٹھ کر جہاں خاندانی قدریں تباہ ہوچکی ہیں اور آدھی قوم اپنے والد سے شرفِ تعارف کا ذریعہ نہیں پاتی اور جہاں شجرۂ نسب ’ہسپتال‘ سے آگے نہیں بڑھتے اور جہاں خون کے رشتے ’ڈی این اے‘ میں تلاش کرنا پڑتے ہیں اور جہاں اکثر پائے جانے والے انسان ’غلطی‘ یا ’چوک‘ کا نتیجہ باور ہوتے ہیں اور یا پھر کسی ’حادثے‘ کا۔۔ اور جہاں سے دنیا کو انارکی و برہنگی کے علاوہ عالمی جنگوں اور تباہ کن بارودوں کے تحفے مل چکے ہیں۔۔۔۔ ایک ایسے ماحول سے اٹھ کر تم خدا کے نبیوں کو تہذیب اور امن کا طعنہ دینے چلے ہو!؟
بخدا، آج ہمیں ان شاعروں اور ادیبوں کی ضرورت ہے جو صرف ’نعت‘ کہنا نہیں بلکہ وقت کے زندیقوں کو اپنے نبی کی جانب سے ’جواب‘ بھی دینا جانتے ہوں اور جواپنے ادب کے اس رجزومعرکہ پرصلہ محض خدا سے پانے کے متمنی ہوں۔
خدایا! ہمارے شاعروں اور ادیبوں کو ”ایمان“ کا لحن دے!”
یہ گرد نہیں بیٹھے گی از حامد کمال الدین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔