Thursday, 19 May 2016

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار

دنیا کے ہر براعظم میں قبولِ اسلام کا شور ہے۔
وہی ”اللہ اکبر“ کے نعرے جو کسی شخص کے پہلی بار ”اَشہد اَن لا الٰہ الا اللہ و اَن محمداً رسول اللہ“ کے الفاظ لب پہ لے آنے پر اول اول ’مکہ‘نامی ایک بستی میں سنے جایا کرتے تھے۔۔ وہی نعرے یورپ، جنوبی امریکہ، شمالی امریکہ اور افریقہ تا آسٹریلیا ”اسلامی سنٹروں“ کے اندر اب روز گونجتے ہیں۔۔۔۔
پیرانِ کلیسا اِس پر چپ ہی رہیں گے؟!
توحید“ کے سامنے ’تثلیث‘ کا نہ ٹھہر سکنا،
اِس تاریخی واقعہ کی تفسیر انسانی ”عقل“ اور” خرد“ اور ”منطق“ اور ”فطرت“ کی بجائے اور اسلام کی قوت و برہان کی بجائے ’اسلام کی تلوار‘ میں تلاش کرنا، وہ عذر لنگ ہے جو اب بے حد پرانا ہو گیا ہے!
مستشرقوں نے آج سے کوئی صدی بھر پہلے اِس کو ایک ’مقولہ‘ بنا دینے کی کوشش کر دیکھی ہے مگر انہیں اِس پر منہ کی کھانی پڑی جب ان کے جھٹلانے کو صرف ماضی کے دل آویز حقائق ہی نہیں، خود آج اِس دور میں بھی خدا نے ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اصل قوت کا ایک چھوٹا سا نظارا کر وا ہی دیا:
آج اِس دور سے بڑھ کر تو مسلمانوں پر ضعیفی کبھی نہ آئی ہوگی! ہر قوم ہی آج مسلمانوں پر شیر ہے! تو آج کونسی تلوار ہے جو مغرب کے اندر لوگوں کو اسلام قبول کروا رہی ہے؟!!! سبحان اللہ اِس دین کے معجزے دنیا اب بھی دیکھ رہی ہے!!!

مسلم ضعیفی کے اِس دور میں بھی قبولِ اسلام کی ایک عالمی لہر مسلسل بلند ہو رہی ہے! ہمارے تعجب کے لئے، ’جدید دنیا‘ کے اِس چشم کشا واقعہ کے سامنے مستشرق جہاں اب کھسیانے ہو رہے ہیں وہاں کلیسا کے منصب بردار اِس کو ’نہایت موثر طعنہ‘ سمجھ کر بآوازِ بلند دہرانے جا رہے ہیں!!!

کلیسا، جس کا نام لیتے ہی ہمیں خود بخود ’اندلس‘ یاد آجاتا ہے، ’قرونِ وسطیٰ‘ کا لفظ اور اس کے سوا ’اور بہت کچھ‘ بھی کلیسا کے حوالے سے تاریخ کی یادداشت کے ساتھ چپک کر رہ گیا ہے۔۔ یہ ’کلیسا‘ آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو طعنہ دینے جا رہا ہے.

’دلیل کی قوت‘ ہی تو اِس دین کا اصل امتیاز ہے! اسلام کی یہی خصوصیت تو ہے جس کے باعث ہمیشہ کی طرح آج بھی اللہ کے فضل سے لوگ ’تثلیث‘ چھوڑ چھوڑ کر ”توحید“ کا رخ کررہے ہیں!!! اسلام کی اِس اصل خصوصیت کو یہ لوگ یوں نظر انداز کر کے دکھاتے ہیں گویا واقعی انجان ہیں!

اسلام کی تلوار کی رونمائی کے دوران اِن کے ہاں یہ بھی ضروری رہتا ہے کہ ’اُس‘ تلوار پر دنیا کی نظر نہ جائے جو ’صلیب‘ کے نام پر طویل صدیاں چلائی جاتی رہی اور جوکہ درحقیقت آج بھی نیام میں نہیں چلی گئی ہے، صرف چولہ بدل گئی ہے (آخر الذکر مسئلہ، جیسا کہ ہم کتاب کی ابتدا میں کہہ آئے ہیں، ہماری اِس حالیہ تحریر کا موضوع نہیں، یہاں بات صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کے حوالے سے ہوگی)۔

یہ خود جانتے ہیں شہنشاہِ قسطنطین کے قبولِ عیسائیت (312ء) کے ساتھ ہی ’دھونس‘ کس طرح میدان میں آئی تھی۔۔۔۔! اور یہ دھونس بھی بھلا کس لئے تھی؟
سینٹ پال کے دین کو مسیح بن مریم علیہ السلام کے دین پر برتری دلانے کیلئے، جس کے نتیجے میں ’مسیحیت‘ کے نام پر ”خدائے واحد“ کے بجائے ’اقانیمِ ثلاثہ‘ کی بزور پوجا کرائی جانے لگی تھی!!!
سبھی کو معلوم ہے Romans کی بے رحم قوت نے میدان میں آکر کیونکر پانسہ پلٹا اور عرصہء دراز سے عیسائی فرقوں کے مابین پائے جانے والے ”توحید بہ مقابلہ تثلیث“ کے اُس طویل معرکہ کو کس جبر اور تشدد کے ساتھ، تثلیث کے حق میں، اختتام پزیر کروایا۔ کسے معلوم نہیں، رومنز کے میدان میں آنے کے ساتھ ہی __ یعنی رومنز کے عیسائیت میں پیر دھرتے ہی __ مسیح علیہ السلام کے سچے پیروکاروں کے ساتھ کیسا آہنی ہاتھ برتا جانے لگا، جب مسیح علیہ السلام کو خدا کا بندہ اور خدا کا نبی کہنے والوں پر (خصوصاً چوتھی صدی عیسوی کے ”اریوسی فرقہ“ پر جوکہ توحید پر قائم تھا) زمین تنگ کر دی گئی تھی، یہاں تک کہ چھٹی صدی عیسوی کے آواخر __ یعنی نبیِ آخر الزمان کے دورِ ولادت __ تک سب ’اریوسیوں‘، ’شمشاطیوں‘ اور ’ابیونیوں‘ (عیسائیوں میں پائے جانے والے بعض موحد فرقےکو معدوم کر کے رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔!

حامد کمال الدین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔