Thursday 19 May 2016

میل جول کی زندگی


آپ ﷺ کا معمول تھا کہ راستہ میں ملنے والوں سے سلام کہتے اورسلام کہنے میں پہل کرتے،کسی کو پیغام بھجواتے تو ساتھ سلام ضرور کہلواتے،کسی کو سلام پہنچایا جاتا تو بھیجنے والے کو بھی اورلانے والے کو بھی جدا جدا سلام کہتے،ایک بار لڑکوں کی ٹولی کے پاس سے گذرے تو ان کو سلام کیا، عورتوں کی جماعت کے پاس سے گذرے تو ان کو سلام کیا، گھر میں داخل ہوتے ہوئے اورگھر سے نکلتے ہوئے گھر کے لوگوں کو بھی سلام کہتے، احباب سے معانقہ بھی فرماتے اورمصافحہ بھی،مصافحہ سے ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک دوسرا خود ہی اپنا ہاتھ الگ نہ کرتا، مجلس میں جاتے تو اس امر کو ناپسند کرتے کہ صحابہ تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، مجلس کے کنارے ہی بیٹھ جاتے،کندھوں پر سے پھاند کر بیچ میں گھسنے سے احتراز فرماتے، فرمایا" اجلس کما یجلس العبد" (اسی طرح اٹھتا بیٹھتا ہوں جس طرح خدا کا بندہ اٹھتا بیٹھتا ہے (روایت عائشہؓ)اپنے زانوساتھیوں سے بڑھا کر نہ بیٹھتے،کوئی آتا تو اعزاز کے لئے اپنی چادر بچھاتے،آنے والا جب تک خود نہ اٹھتا آپ مجلس سے الگ نہ ہوتے،کسی کی ملاقات کو جاتے تو دروازہ کے دائین یا بائیں کھڑے ہوکر اطلاع دینے اوراجازت لینے کے لئے تین مرتبہ سلام کہتے،جواب نہ ملتا تو بغیر کسی احساس تکدر کے واپس آجاتے،رات کو کسی سے ملنے جاتے تو اتنی آواز میں سلام کہتے کہ اگر وہ جاگتا ہو تو سن لے اورسورہا ہو تو نیند میں خلل نہ آئے۔
بدسلوکی کا بدلہ برے سلوک سے نہ دیتے ؛بلکہ عفوودرگذرسے کام لیتے،بیماروں کی عیادت کو پابندی سے جاتے،سرہانے بیٹھ کر پوچھتے،کیف تجدک (تمہاری طبیعت کیسی ہے؟)جس کسی شخص کی وفات ہوجاتی توتشریف لے جاتے،میت کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار فرماتے،صبر کی نصیحت کرتے اور چلانے اوربکاکرنے سے روکتے،تجہیز وتکفین میں جلدی کراتے،جنازہ اٹھتا تو ساتھ ساتھ چلتے،تلقین فرماتے کہ میت کے گھر والوں کے لئے لوگ پکواکر بھیجوائیں۔
کوئی مسافر سفر سے واپس آتا اورحاضری دیتا تو اسے معانقہ کرتے، بعض اوقات پیشانی چوم لیتے،کسی کو سفر کے لئے رخصت فرماتے تو کہتے کہ بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔
بچوں سے بہت دلچسپی تھی،بچوں کے سرپر ہاتھ پھیرتے،پیار کرتے،دعا فرماتے، ننھے بچے لائے جاتے تو ان کو گود میں لیتے، ان کو بہلانے کے لئے عجیب کلمے فرماتے۔
بوڑھوں کااحترام فرماتے، فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ صدیق اپنے ضعیف العمر والد کو(جو بینائی سے بھی محروم ہوچکے تھے) بیعت اسلام کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں لائے،فرمایا: انہیں کیوں تکلیف دی میں خود ان کے پاس چلا جاتا۔
مروت کی انتہاء یہ تھی کہ مدینہ کی ایک عورت جس کی عقل میں کچھ فتور تھا آتی ہے اورکہتی ہے کہ مجھے کچھ کہنا ہے، آپ ﷺ اسے فرماتے ہیں کہ تم چلو،کسی کو چہ میں انتظار کرو،میں ابھی آتا ہوں،چنانچہ اس کی بات جاکر سنی اوراس کا کام کرکے دیا، میل جول کی زندگی میں آپ کے حسن کردار کی تصویر حضرت انسؓ نے خوب کھینچی ہے، وہ فرماتے ہیں:" میں دس برس تک حضورﷺ کی خدمت میں رہا اورآپ نے مجھے کبھی اُف تک نہ کہی، کوئی کام جیسا بھی کیا نہیں کہا کہ یہ کیوں کیا اور کوئی کام نہ کیا تو نہیں کہا کہ کیوں نہیں کیا، یہی معاملہ آپ کے خادموں اور کنیزوں کے ساتھ رہا، آپ ﷺ نے ان میں سے کسی کو نہیں مارا" ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔