Thursday, 19 May 2016

دلیل کی قوت ہی تو رسالتِ محمدی کا اصل امتیاز ہے-

اسلام کی ’تلوار‘ کو موضوع بنانے والے عیسائیوں کیلئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ وہ پہلا عیسائی جو نبی آخر الزمان پر ایمان لایا، وقت کا ایک مقتدر بادشاہ تھا. محمدﷺ پر پائی جانے والی تاریخ (سیرت) کی کوئی کتاب نہ ہوگی جس میں ’ہجرتِ حبشہ‘ کے عنوان سے یہ واقعہ درج نہ ہو!
اس کے علاوہ تاریخ کی مشہور ہستی حاتم طائی کے بیٹے عدیؓ بن حاتم جو اپنی قوم کے بادشاہ ہیں اور نصرانی ہیں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرفِ صحبت حاصل کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں، کیا یہ بات اِن کے نوٹ کرنے کی نہیں کہ۔۔۔۔ ”دلائل“ رکھنے میں معاذ اللہ اِس نبی کے ہاں کوئی کمی ہوتی تو یہ ’یثرب‘ کا رخ کیوں کرتا جہاں یہود کے اَحبار اپنے صحیفے کھول کر بیٹھے تھے؟
انبیاءکے صحیفے پاس رکھنے کے حوالے سے پورے عرب میں اَحبارِ یہود ہی کی دھاک تو بیٹھی تھی! کیا اِس واقعہ کی کوئی دلالت یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ کیونکر اِس نبی کا دار الہجرت پورے عرب میں سے ایک یثرب ہی کو بنایا جاتا ہے! یہ تو درحقیقت پورے عرب کو دکھانے کیلئے تھا کہ بے شک یہ (عرب) خود اُمّی (ناخواندہ) ہیں مگر ایسا نہیں کہ اِس نبی کے دلائل و آیات صرف اِن عربوں کو لاجواب کر سکتے ہوں بلکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ احبارِ یہود جو علمِ نبوت کے ماہر مانے جاتے ہیں، ایسے ’ماہرینِ دینیات‘ بھی اِس نبی کے سامنے کس طرح گھگیاتے ہیں اور اُن کی ہٹ دھرمی سب دیکھنے والوں کے روبرو کیونکر آشکارا ہوتی ہے۔اوریہاں یہود کے بعض چوٹی کے علماءمانند عبد اللہ بن سلام حلقہ بگوش اسلام بھی ہوجاتے ہیں۔ ۔!!
آج کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ لکھاری کس ’ناقدانہ بے پروائی سے ‘اپنے تئیں ’ترپ کا پتہ‘ پھینکتے ہیں:
’اگر آپ ﷺنبی تھے اور دلیلیں پاس رکھتے تھے تو پھر نبیوں کے واقف یہود نے تو آپ کو پہچان کر نہ دیا‘ بلکہ اِن میں سے کئی سارے آج کل یہ بھی لکھتے پھر رہے ہیں (نقل کفر کفر نہ باشد) کہ ’محمدﷺ اَن پڑھ عربوں کو ہی ساتھ ملا سکتے تھے مانتے تو تب جب کتاب کا علم رکھنے والے یہود آپ کو مان کر دیتے مگر یہود نے، کہ صرف وہی تھے جو انبیاءکی تاریخ سے واقف تھے، آپ کی اِس دعوت کا ذرہ بھر وزن نہ لگایا اور عرب اُمّیوں کے سوا کہیں آپ کو پزیرائی نہ ہوئی‘ (معاذ اللہ)۔
کیا اِن معترضین سے ، جنکی اکثریت نصرانی ہے، ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اِن یہود نے اِس سے پہلے کیا مسیح کو پہچان کر دیا تھا؟!
یہودی جو انبیاءکی تاریخ سے نہایت خوب واقف تھے مسیح علیہ السلام پر ایمان کیوں نہ لے آئے تھے؟!! کیا معاذ اللہ ’دلیل‘ کی کمی تھی؟؟!
حالانکہ مسیح علیہ السلام کو تو بھیجا ہی یہود کی طرف گیا تھا!!! محمدﷺ پر تو پھر آپ کی اپنی قوم ایمان لے آئی، مسیح کو تو ان کی اپنی قوم جو کتاب کا علم رکھتی تھی، یعنی یہود، نے رد ہی کر دیا تھا۔!
یہودیوں کے ایمان نہ لانے سے تم نصرانیوں کے یہاں مسیح کی (معاذ اللہ) ’خدائی‘ پر حرف نہ آیا تو یہودیوں کے ایمان نہ لانے سے ہم مسلمانوں کے یہاں محمدﷺ کی ”نبوت“ کیوں متاثر ہونے لگی؟!
مسیح علیہ السلام نے یہودی فریسیوں کو جیسی جیسی سنائیں، کیا وہ تمہاری بائبل کے عہدِ جدید میں مذکور نہیں؟؟
کیا آج تک تمہارے یہاں یہ نہیں کہا جاتا رہا کہ اِن لوگوں نے (معاذ اللہ) تمہارے ’خدا‘ کو سولی چڑھوایا تھا؟ ہمارے ”نبی“ نے ایسے لوگوں سے(حضور اور مسلمانوں کے اجتماعی قتل کے منصوبوں کے باوجود )اپنی بچت کر لی ۔۔ مگر کیا یہ حق نہیں کہ انبیاءکی واقف اِس قوم کا رویہ مسیح اور محمدﷺ ہر دو کے ساتھ ایک سا ہی رہا؟
اصل چیز یہ ہے کہ نہایت مدلل انداز میں ان پر حجت مسیح اور محمدﷺ دونوں نے قائم کی ۔ یہود میں سے چند حق پرست مسیح پر بھی ایمان لائے، یہود میں سے چند حق پرست محمدﷺ پر بھی ایمان لائے۔ یہود کی اکثریت نے مسیح کے ساتھ بھی کفر کیا، یہود کی اکثریت نے محمدﷺ کے ساتھ بھی کفر کیا۔ پھر فرق کیسا؟؟؟
البتہ خاص بات یہ ہے کہ یہود مسیح کی اپنی قوم تھے اور مسیح کو خاص بھیجا ہی انہی کیلئے گیا تھا لہٰذا مسیح کو یہود کا سامنا کرنا ہی تھا، تاہم محمدﷺ کی نہ یہ اپنی قوم تھی اور نہ ان کا سامنا کرنے کی آپ کو ویسی کوئی ضرورت۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہود کے گڑھ میں جا بیٹھنا یہاں تک کہ بعض مواقع پر یہود کے بڑے بڑے اجتماعات کے وقت اُن کے عبادت خانوں کے اندر جا کر اُن سے بات کر کے آنا کیا اِس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ یہ تو خدا کا کوئی خاص منصوبہ تھا کہ اَخبارِ انبیاءسے واقف اِس قوم کے ساتھ اِس نبی کے جدال اور اُن پر اِس کی حقانیت کی دھاک بٹھا کر پورے عرب کو دکھا دی جائے، بلکہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ چونکہ بیک وقت تاریخ کے مستند ترین وثائق کا بھی حصہ بن رہا تھا، لہٰذا آپ کا یہ جدال قرآن کی اُن سورتوں سمیت جو بنی اسرائیل کو خطاب کر کے اتاری گئیں پوری انسانی تاریخ کو ہی دکھلا دیا جائے!

حامد کمال الدین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔