عام طور پر دنیا کے دوسرے معلّمین اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصولوں کی تبلیغ کرتے ہیں اور جن ملکوتی صفات کو جذب کرنے پر زور دیتے ہیں خود ان کی اپنی زندگی میں ان تعلیمات کا اثر بہت کم ہوتا ہے، مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آپ کو کہیں بھی یہ نقص نظر نہیں آئے گا جو شخص سیرت و کردار پاک کی جتنی زیادہ گہرائی میں جائے گا وہ اسی قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور پاکیزہ کردار کا مدح سرا نظر آئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ نیکی کا کوئی کام اور ثواب کا کوئی عمل ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اس پر عمل کرتے تھے۔ آپ جب کسی بات کا حکم دیتے تو پہلے آپ اس کو کرنے والے ہوتے۔
حضرت انس بن مالک رضي الله تعالى عنه رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صحابی اور وفادار خادم تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور آپ کی سیرتِ مبارکہ کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے پورے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے۔
حضرت انس رضي الله تعالى عنه سے زیادہ قریب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار اور اخلاق واعمال کے مشاہدے کا موقع ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنها کو میسر آیا تھا کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیقہٴ حیات تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ظاہری اور خانگی معمولات و عادات سے واقف تھیں۔ ایک مرتبہ چند صحابی رضي الله تعالى عنه حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله تعالى عنها کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے امّ المومنین ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور معمولات بیان فرمائیے۔ تو عائشہ صدیقہ نے جواب دیا کہ کیا تم لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا؟ کان خلق رسول القرآن ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا“ (ابوداؤد شریف) یعنی قرآنی تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار میں رچی اور بسی ہوئی تھی۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ذرا بھی منحرف نہ تھے۔ خود قرآن کریم میں آپ کے بلند اخلاق و کردار کی شہادت دی گئی ہے کہ ”بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“ (سورہ القلم آیت:۴)
رشتہ داروں میں حضرت علی رضي الله تعالى عنه جو بچپن سے جوانی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طبیعت کے نرم اور اخلاق کے نیک تھے، طبیعت میں مہربانی تھی سخت مزاج نہ تھے۔ کسی کی دل شکنی نہ کرتے تھے، بلکہ دلوں پر مرہم رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رؤف و رحیم تھے۔ (شمائل ترمذی)
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیائے بشریت کے لئے اسوئہ حسنہ اور الٰہی فیوض و ہدایات و احکام کا ایسا مفید وگہرا چشمہ ہے جو کبھی خشک ہونے والا نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نورخداوندی کا ایسا مرکز ہے جہاں تاریکی کا گذر نہیں ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پاکیزہ زندگی کے تمام پہلوؤں کی مثالیں اور نمونے موجود ہیں امن وآشتی کی جھلکیاں ہوں تو صلح ومصالحت کی بھی، دفاعی حکمت عملی کی بھی اور معتدل حالات میں پرسکون کیفیات کی بھی، اپنوں کے واسطہ کی بھی اور بے گانوں سے تعلقات کی بھی معاشرت و معاملات کی بھی اور ریاضت و عبادات کی بھی۔ عفوو کرم کی بھی اور جودوسخا کی بھی تبلیغ و تقریر کی بھی اور زجر و تحدید کی بھی ان جھلکیوں میں جاں نثاروں کے حلقے بھی ہیں اور سازشوں کے نرغے بھی ، امیدیں بھی ہیں اور اندیشے بھی گویا انسانی زندگی کے گوشوں پر محیط ایک ایسی کامل اور جامع حیات طیبہ ہے جو رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لئے رہبر و رہنما ہے۔
تحریر : مولانا شیر محمد امینی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔