Thursday 19 May 2016

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ جنگ میں


عہد نبوی سے قبل فطرت کے خلاف ہونے والی جنگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ عرب کی غیرمتمدن قوم کی جنگ، روم و ایران کی متمدن قوموں کی جنگ۔

غیرمتمدن قوم کا طرز جنگ:
اس قوم کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر و اہمیت نہ تھی، اور جنگ ان کا قومی پیشہ بن گیا تھا، ادنیٰ ادنیٰ بات پر شمشیریں بے نیام ہوجاتیں ، ایک پشت سے دوسری پشت کی طرف یہ جنگیں منتقل ہوتی رہتی تھیں، انتقامی جذبہ کی تسکین اور حرص وہوس کی تکمیل کے لیے تمام غیر انسانی سلوک روا رکھے جاتے بدعہدی، لاشوں کی بے حرمتی، ناک کان کاٹ کر اس کا ہار پہننا، دشمنوں کی کھوپڑیوں میں شراب پینے کی نذر ماننا، ان کو نذر آتش کردینا، قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرنا اور قتل کرادینا بلکہ انسانیت کے تمام حدود کو پار کرکے سنگدلی و درندگی کے اس چوراہے پر پہنچ گئے تھے کہ انسانی کلیجے چباڈالتے تھے اوراس سب پر طرہ یہ کہ اس کو فخر وشجاعت کا ذریعہ سمجھتے۔ اس طرح کی خونی داستان سے دور جاہلیت کی پوری شاعری بھری پڑی ہے جو اہل عرب کے نزدیک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

متمدن قوم کا نظریہٴ جنگ:
اس طرح کی صورت حال تو عرب جیسے اجڈ اور ان پڑھ قوم کی تھی لیکن جو قوم مہذب ومتمدن کہلاتی تھی اس کا جنگی رویہ بھی ان سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا، ان کے شب و روز بھی ظلم و بربریت کی خونی داستان سے رنگین تھے، جنگ کے حوالہ سے کوئی اصول وقانون نہ تھا، زمین کے جس حصہ پر وہ چڑھ آئے وہاں قیامت صغریٰ برپا کردیتے، ان کے سپہ سالار کی حیثیت حضرت اسرافیل کی سی ہوتی اور اس کا حکم ”صور“ ہوتا جنگ کا بگل بجتے ہی یکساں طور پر بوڑھوں، بچوں ، عورتوں، بیماروں، معذوروں، راہب و گوشہ نشینوں کو، فصلوں، باغات اور آبادیوں کو تہس نہس اور تہہ وبالا کردیا جاتا۔ ان کے اندر مذہبی عناد بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، متبرک مقامات کی بے حرمتی بھی جنگ کا ایک حصہ تھا، عیسائی، یہودی اور مجوسی میں سے جب بھی کوئی ایک دوسرے پر غالب آتا تو اس کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکتا، ہزاروں لاکھوں جانیں ضائع ہوجاتیں، سفراء کوبھی نہیں بخشا جاتا، بدعہدی بھی ایک عام چیز تھی؛ بلکہ نوشیرواں بادشاہ جس کی عدالت مشہور تھی اس کا دامن بھی انسانی خون سے رنگین ہوئے بغیر نہ رہا۔ چنانچہ ۶۴۰/ میں اس نے شام کے دارالحکومت پر قبضہ کیا تو شہریوں کے قتل عام اور عمارتوں کے مسمار کرنے کا حکم دیا اور پوری آبادی کو قید کرکے خاکستر کردیا۔
اس مہذب قوم کے وحشیانہ کھیل اور خون تفریح کا سامان جنگی قیدی ہوا کرتے تھے، پہلے تو ان قیدیوں کو زنجیروں میں جکڑدیتے پھر اذیت ناک سلوک کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا۔یہی وجہ ہے کہ ۶۱۱/ میں جب ہرقل کی بیوی کے جنازے میں جاتے ہوئے ایک لونڈی نے زمین پر تھوک دیا تو اسے اس ناقابل معافی گستاخی میں اپنی جان دے کر اس کی قیمت چکانی پڑی، اسی طرح جب قیصر روم شکست کھاکر ایران کا قیدی بنا تو اس کی پوری زندگی غلامی میں گزری اور مرنے کے بعد اس کی کھال کھینچواکر بھس بھروادیاگیا۔ (اخلاق رسول۲/۸۲)۔
اور لطیفہ کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارا ڈرامہ کسی اہم مقصد کے تحت اسٹیج نہیں دیا جاتا بلکہ صرف شہرت و ناموری کے حصول اور شاہانہ ہیبت و جلال کے اظہار کے لیے ہوتا تھا۔

اسلامی جنگ کے اصول وضوابط:
جنگ کے سلسلے میں حضور نے اولاً گذشتہ جنگی طریقوں کی اصلاح کی، اس کے بعد اس کے لیے ایسے پاکیزہ اصول طے کیے کہ یہی جنگ جس کا نام سنتے ہی روح کانپ اٹھتی تھی اور مفتوح قوم کھلی آنکھوں موت کا مشاہدہ کرنے لگتی تھی، انسانیت کی بے راہ روی اور اخلاقی، جانی اور مادی تحفظ کا ذریعہ بن گئی، اولاً صلح وامن سے کام لینے کی تاکید کی گئی اور انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں سخت شرائط کے ساتھ تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی مسلسل تیرہ سال ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے اور بغیر کسی جرم وخطا کے ان کو ان کے گھروں سے نکال کر جلاوطن کردیاگیا، لیکن جلاوطنی کے بعد بھی تعاقب جاری رہا تو انھیں جنگ کی اجازت دی گئی، لیکن اجازت اس طرح کہ امیر جیش کے حکم کے بغیر صف سے نکلنا بھی گوارہ نہ تھا، ناحق خون بہانے کی قطعاً اجازت نہیں دی گئی؛ بلکہ جو بالمقابل ہے اسی سے لڑو، لاشوں کو مثلہ نہ کرو، شب خون نہ مارو، اذیت دے کر قتل نہ کرو، راہبوں، گوشہ نشینوں، معذوروں، عورتوں، بچوں بوڑھوں کو نہ چھیڑو، عمارت نہ ڈھاؤ، پھلدار درخت نہ کاٹو، جو لوگ تمہارے قیدی بن جائیں ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرو، ان کو کھانا کھلاؤ اور لباس کا خیال رکھو۔ قرآن نے قیدیوں کے کھانا کھلانے کو بہترین عمل قرار دیا ہے۔ پھر ارشاد ہوا آبادی کو نہ اجاڑو یہاں تک کہ فخر و غرور سے پُرنعرے بازی سے بھی حضور نے منع فرمایا۔
ان اصول اور طریقہ کار کو آپ اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں نے عملی جامہ پہناکر غیرمسلم قوم کے ظالمانہ جنگی طریقوں کی تمام راہیں مسدود کردیں، ان اصول و ضوابط سے انسانی جان کی غیرمعمولی قدر واہمیت اور اس کے احترام کا پتہ چلتا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔