بہرحال یہود نے جب لشکر دیکھا تو سیدھے شہر میں بھاگے اور اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ جنگ گے لیے تیارہوجائیں مسلمانوں نے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ کیا۔ کیونکہ یہ قلعہ اپنے محلِ وقوع کی نزاکت اور اسٹراٹیجی کے لحاظ سے یہود کی پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور یہی قلعہ مَرْحب نامی اس شہ زور اور جانبازیہودی کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار مردوں کے برابرمانا جاتا تھا۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ مسلمانوں کی فوج لے کر اس قلعے کے سامنے پہنچے اور یہود کو اسلام کی دعوت دی۔ تو انہوں نے یہ دعوت مسترد کردی اور اپنے بادشاہ مرحب کی کمان میں مسلمانوں کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔ میدان جنگ میں اتر کر پہلے مرحب نے دعوتِ مبارزت دی جس کی کیفیت سلمہ بن اکوعؓ نے یوں بیان کی ہے کہ جب ہم لوگ خیبر پہنچے تو ان کا بادشاہ مرحب اپنی تلوار لے کر نازوتکبر کے ساتھ اَٹْھلاتا اور یہ کہتا ہو نمودار ہوا :
قد علمت خیبر أنی مرحب
شاکی السلاح بطل مجرب
إذا الحروب أقبلت تلہب
خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار پوش ، بہادر اور تجربہ کار ! جب جنگ وپیکار شعلہ زن ہو۔
اس کے مقابل میرے چچا عامر نمودار ہوئے اور فرمایا:
قد علمت خیبر أنی عامر
شاکی السلاح بطل مغامر
''خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہو ں۔ ہتھیار پوش ، شہ زور اور جنگجو۔ ''
پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا۔ مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کے ڈھال میں جاچبھی۔ اور عامر نے اسے نیچے سے مارنا چاہا۔ لیکن ان کی تلوار چھوٹی تھی۔ انہوں نے اس کی پنڈلی پر وار کیا تو تلوار کا سرا پلٹ کر ان کے گھٹنے پر آلگا۔ اور بالآخر اسی زخم سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ نبیﷺ نے اپنی دو انگلیاں اکٹھا کرکے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لیے دوہرا اجر ہے۔ وہ بڑے جانباز مجاہد تھے۔ کم ہی ان جیسا کوئی عرب رُوئے زمین پر چلا ہوگا۔( صحیح مسلم ، باب غزوۂ خیبر ۲/۱۲۲ باب غزوہ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵ صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳)
بہرحال حضرت عامر کے زخمی ہوجانے کے بعد مرحب کے مقابلے کے لیے حضرت علیؓ تشریف لے گئے۔ حضرت سلمہ بن اکوع کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت علیؓ نے یہ اشعار کہے:
أنا الذي سمتني أمي حیدرہ کلیث غابات کریہ المنظرہ
أوفیہم بالصاع کیل السندرہ
''میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر ( شیر) رکھا ہے۔ جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا۔''
اس کے بعد مرحب کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ پھر حضرت علیؓ ہی کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔ مرحب کے قاتل کے بارے میں مآخذ کے اندر بڑا اختلاف ہے۔ اور اس میں بھی سخت اختلاف ہے کس دن وہ مارا گیا اور کس دن یہ قلعہ فتح ہوا۔ صحیحین کی روایت کے سیاق میں بھی کسی قدر اس اختلاف کی علامت موجود ہے۔ ہم نے اوپر جو ترتیب ذکر کی ہے وہ صحیح بخاری کی روایت کے سیاق کو ترجیح دیتے ہوئے قائم کی گئی ہے۔
جنگ کے دوران حضرت علیؓ یہود کے قلعہ کے قریب پہنچے تو ایک یہودی نے قلعہ کی چوٹی سے جھانک کرکہا : تم کون ہو ؟ حضرت علیؓ نے کہا : میں علی بن ابی طالب ہوں۔ یہودی نے کہا: اس کتاب کی قسم جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی ! تم لوگ بلند ہو ئے۔ اس کے بعد مرحب کا بھائی یاسر یہ کہتے ہوئے نکلا کہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا۔ اس کے اس چیلنج پر حضرت زبیرؓ میدان اترے۔ اس پر ان کی ماں حضرت صفیہ ؓ نے کہا : یارسول اللہ ! کیا میرا بیٹا قتل کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا:نہیں ! بلکہ تمہارا بیٹا اسے قتل کرے گا۔ چنانچہ حضرت زبیرؓ نے یاسر کو قتل کردیا۔
اس کے بعد حصن ناعم کے پاس زور دار جنگ ہوئی، جس میں کئی سربرآوردہ یہودی مارے گئے۔ اور بقیہ یہود میں تابِ مقاومت نہ رہی۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کا حملہ نہ روک سکے۔ بعض مآخذ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ کئی دن جاری رہی اور اس میں مسلمانوں کو شدید مقاومت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہود، مسلمانوں کو زیر کرنے سے مایوس ہوچکے تھے۔ اس لیے چپکے چپکے اس قلعے سے منتقل ہوکر قلعہ صعب میں چلے گئے اور مسلمانو ں نے قلعہ ناعم پر قبضہ کرلیا۔
1 comments:
very good
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔