Monday 19 October 2015

غزوہ کی تیاری اور اخفاء کی کوشش


طبرانی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے عہد شکنی کی خبر آنے سے تین روز پہلے ہی حضرت عائشہ ؓ کو حکم دے دیا تھا کہ آپ کا سازوسامان تیار کر دیں لیکن کسی کو پتہ نہ چلے۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ کے پاس حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے تو پوچھا : بیٹی ! یہ کیسی تیاری ہے ؟ انہوں نے کہا : واللہ! مجھے نہیں معلوم۔ حضرت ا بو بکرؓ نے کہا : یہ بنو اَصْفر یعنی رومیوں سے جنگ کا وقت نہیں۔ پھر رسول اللہﷺ کا ارادہ کدھر کا ہے ؟ حضرت عائشہؓ نے کہا : واللہ مجھے علم نہیں۔ تیسرے روز علی الصباح عمرو بن سالم خزاعی چالیس سواروں کو لے کر پہنچ گیا اور یا رب إني ناشد محمدا ... الخ والے اشعار کہے تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ عہد شکنی کی گئی ہے۔ اس کے بعد بدیل آیا۔ پھر ابو سفیان آیا ، اور لوگوں کو حالات کا ٹھیک ٹھیک علم ہو گیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے تیاری کا حکم دیتے ہوئے بتلایا کہ مکہ چلنا ہے اور ساتھ ہی یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ ! جاسوسوں اور خبروں کو قریش تک پہنچنے سے روک اورپکڑ لے تاکہ ہم ان کے علاقے میں ان کے سر پر ایک دم جاپہنچیں۔
پھر کمال اخفاء اور رازداری کی غرض سے رسول اللہﷺ نے شروع ماہ رمضان ۸ ھ میں حضرت ابو قتادہ بن ربعی کی قیادت میں آٹھ آدمیوں کا ایک سریہ بطن اضم کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ مقام ذی خشب اور ذی المروہ کے درمیان مدینہ سے ۳۶ عربی میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مقصد یہ تھا کہ سمجھنے والا سمجھے کہ آپ اسی علاقے کا رخ کریں گے اور یہی خبریں اِدھر اُدھر پھیلیں۔ لیکن یہ سریہ جب اپنے مقررہ مقام پر پہنچ گیا تو اسے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ مکہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ چنانچہ یہ بھی آپ سے جاملا۔
یہی سریہ ہے جس کی ملاقات عامر بن اضبط سے ہوئی تو عامر نے اسلامی دستور کے مطابق سلام کیا۔ لیکن محلم بن جثامہ نے کسی سابقہ رنجش کے سبب اسے قتل کردیا اور اس کے اونٹ اور سامان پر قبضہ کرلیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ...الآیہ یعنی ''جوتم سے سلام کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔''اس کے بعد صحابہ کرام محلم کو رسول اللہﷺ کے پاس لے آئے کہ آپ اس کے لیے دعاء مغفرت کردیں۔ لیکن جب محلم آپ کے سامنے حاضر ہوا تو آپ نے تین بار فرمایا : اے اللہ ! محلم کو نہ بخش۔ اس کے بعدمحلم اپنے کپڑے کے دامن سے آنسو پونچھتا ہوااٹھا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کی قوم کے لوگ کہتے ہیں کہ بعد میں اس کے لیے رسول اللہﷺ نے مغفرت کی دعا کردی تھی۔ دیکھئے : زاد المعاد ۲/۱۵۰ ، ابن ہشام ۲/۶۲۶،۶۲۷،۶۲۸۔
ادھر حاطب ابی بلتعہؓ نے قریش کو ایک رقعہ لکھ کر یہ اطلاع دے بھیجی کہ رسول اللہﷺ حملہ کرنے والے ہیں۔ انہوں نے یہ رقعہ ایک عورت کو دیا تھا۔ اور اسے قریش تک پہنچانے پر معاوضہ رکھا تھا۔ عورت سر کی چوٹی میں رقعہ چھپا کر روانہ ہوئی۔ لیکن رسول اللہﷺ کو آسمان سے حاطب کی اس حرکت کی خبر دے دی گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی، حضرت مقداد ، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد غنوی کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جاؤ روضۂ خاخ پہنچو۔ وہاں ایک ہودج نشین عورت ملے گی۔ جس کے پاس قریش کے نام ایک رقعہ ہوگا۔ یہ حضرات گھوڑوں پر سوار تیزی سے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو عورت موجود تھی۔ اس سے کہا کہ وہ نیچے اُترے اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی خط ہے ؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ انہوں نے اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا۔ اس پر حضرت علیؓ نے اس سے کہا : میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نہ رسول اللہﷺ نے جھوٹ کہا ہے نہ ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ تم یاتو خط نکالو ، یا ہم تمہیں ننگا کردیں گے۔ جب اس نے یہ پختگی دیکھی تو بولی : اچھا منہ پھیرو۔ انہوں نے منہ پھیر ا تو اس نے چوٹی کھول کر خط نکالا اور ان کے حوالے کردیا۔ یہ لوگ خط لے کر رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو اس میں تحریر تھا : (حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے قریش کی جانب ) پھر قریش کو رسول اللہﷺ کی روانگی کی خبر دی تھی۔ رسول اللہﷺ نے حضرت حاطب کو بلا کر پوچھا کہ حاطب ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اے محمدﷺ ! میرے خلاف جلدی نہ فرمائیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان ہے۔ میں نہ تو مرتد ہوا ہوں اور نہ مجھ میں تبدیلی آئی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ میں خود قریش کا آدمی نہیں۔ البتہ ان میں چپکا ہوا تھا اور میرے اہل وعیال اور بال بچے وہیں ہیں۔ لیکن قریش سے میری کوئی قرابت نہیں کہ وہ میرے بال بچوں کی حفاظت کریں۔ اس کے بر خلاف دوسرے لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں جو ان کی حفاظت کریں گے۔ اس لیے جب مجھے یہ چیز حاصل نہ تھی تو میں نے چاہا کہ ان پر ایک احسان کردوں جس کے عوض وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں۔ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے چھوڑیے میں اس کی گردن ماردوں۔ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی ہے اور یہ منافق ہوگیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : دیکھو! یہ جنگِ بدر میں حاضر ہوچکا ہے۔ اور عمر ! تمہیں کیا پتہ ؟ ہوسکتا ہے اللہ نے اہلِ بدر پر نمودار ہوکر کہا ہو تم لوگ جو چاہو کرو ، میں نے تمہیں بخش دیا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔( صحیح بخاری ۱/۴۲۲ ، ۲/۶۱۲ ، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد کے ناموں کا اضافہ صحیح بخاری کی بعض دوسری روایات میں ہے۔)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔