Monday 19 October 2015

محاصرے کی طوالت


حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ طائف کے محاصرہ کو جب پندرہ دن گذر گئے تو آنحضرت ﷺ نے نوفل بن معاویہ سے مشورہ کیا کہ محاصرہ کو جاری رکھنے کہ متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اﷲ! ثقیف کی مثال اس لومڑی کی ہے جو اپنے بل میں چھپی بیٹھی ہو، اگر آپﷺ اس کے پیچھے پڑے رہیں گے اسے پکڑ لیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیں تب بھی وہ آپﷺ کو کچھ ضرر نہیں پہنچاسکتی،
اسی زمانہ میں حضور ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپﷺ کے سامنے ایک پیالہ مکھن سے بھرا ہوا پیش کیاگیامگر ایک مرغ نے ٹھونگ مار کر بہا دیا، آپﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے خواب کا تذکرہ فرمایا، حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا… یا رسول اﷲ! میرا خیال ہے کہ ہم اس جنگ میں اپنا مقصد حاصل نہ کرسکیں گے،
محاصرہ کی طوالت کے دوران حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! اب تو ثقیف کے لئے آپﷺ بددعا فرمائیں، حضورﷺ نے جواب دیا " اے عمر ! مجھے ثقیف کے لئے اﷲ تعالیٰ نے بددعا کی اجازت نہیں دی" ، حضرت عمرؓ نے عرض کیا… یا رسول اﷲ! جس قوم کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو بددعا سے روک دیا ہم اس کے مقابلہ میں اپنی جانیں کیوں گنواتے رہیں، یہ سن کر حضور اکرمﷺ نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرمایا اور حضرت عمرﷺ کے ذریعہ لوگوں میں منادی کروادی کہ ہم انشااﷲ کل واپس ہوں گے؛ لیکن یہ اعلان بعض صحابہؓ پر گراں گذرا، وہ کہنے لگے کہ ہم طائف فتح کئے بغیر واپس نہ ہونگے، اس پر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اچھا کل لڑائی پر چلنا ہے، چنانچہ دوسرے روز لڑائی پر گئے؛ لیکن دشمن کے تیروں کا نشانہ بننا پڑا اور کئی صحابہؓ زخمی ہوگئے ، اس کے بعد آپﷺنے فرمایا! ہم انشااﷲ کل واپس ہونگے، یہ سن کر صحابہؓ خوش ہوگئے اور کوچ کی تیاری کرنے لگے، آپﷺ نے فرمایا کہ کہو (ہم)لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور حمد کرنے والے ہیں، لیکن بعض صحابہؓ نے روانگی کے وقت پھر عرض کیا… یا رسول اﷲ! ثقیف کے کافروں کے لئے بددعا فرمائیں؛ لیکن حضور ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی!
" اے اﷲ ثقیف کو ہدایت نصیب فرما اورانہیں میرے پاس بھیج دے" یہ دعا قبول ہوئی اور جلد ہی ثقیف کے سردار حضور اکرمﷺ کے قدموں میں آگرے،
واپسی: آنحضرت ﷺ نے محاصرہ کو طول دینا پسند نہ فرمایا اس لئے کہ حُرمت والا مہینہ(ذی قعدہ) قریب آرہا تھا جس میں قتال و جہاد جائز نہیں ، رسول اﷲ ﷺ طائف کا ایک مہینہ یا بیس روز تک محاصرہ کرنے کے بعد مراجعت فرمائی، جعرانہ ہوئے ہی تھے کہ ماہِ ذیقعد شروع ہوگیا اور آنحضرت ﷺنے اپنے لشکر سمیت عمرہ کا احرام باندھا، بعض راوی یہ بھی کہتے ہیں کہ طائف سے واپسی کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے ماہِ محرم ختم ہوجانے کے بعد پھر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.
(حیات محمد- محمد حسین ہیکل)

اس غزوہ میں بارہ صحابہؓ شہید ہوئے جن کے نام حسب ذیل ہیں:
قریش میں سے :
۱) سعیدؓ بن عاص بن اُمیہ ۲) عرفطہؓ بن خباب حلیف بنی اُمیہ۳) عبداﷲؓ بن ابوبکر صدیق کو تیر لگا اور وہ اس زخم کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد وفات پائے
۴) عبداﷲؓ بن ابی اُمیہ بن مغیرہ مخزومی (ام المومنین اُم سلمہ کے بھائی ) ۵) عبداﷲؓ بن عامر بن ربیعہ حلیف بنی عدی۶) سائبؓ بن حارث بن قیس بن عدی سہمی ۷) عبداﷲؓبن حارث ( سائب کے بھائی )
بنو لیث سے :
۱) جلیحہ ؓ بن عبداﷲ از بنی سعد بن لیث لیثی
خزرج میں سے :
۱) ثابتؓ بن جزع اسلمی
۲) حارث ؓ بن سہل بن ابی صعصعہ مازنی
۳) المنذر ؓ بن عبداﷲ بن عدی
اوس سے :
۱) رقیم ؓ بن ثابت بن ثعلبہ بن زید بن لوازن بن معاویہ اوسی
اس طرح سات قریشی ، ایک لیثی ، ایک اوسی اور تین خزرجی جملہ بارہ صحابہ ؓ شہید ہوئے،
(سیرت النبی ، ابن کثیر)
مولف رحمتہ للعالمین نے شہدائے طائف کی تعداد ( ۳) بتلائی ہے:

ان ایام میں جب کہ طائف کا حضور اکرم ﷺ نے محاصرہ کرلیاتھاطائف کے گرد و نواح کے رہنے والے اکثر لوگ خود اور بعض وفود کی شکل میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان لائے.
(سیرت النبی- علامہ ابن خلدون)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔