Monday, 19 October 2015

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے روانگی


دشمن کی نقل و حرکت سے واقفیت کے لئے حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو حدردؓ اسلمی کو روانہ کیاتھا تاکہ ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرکے اطلاع دیں، چنانچہ وہ وہاں جاکر واپس آئے اور دشمن کے منصوبوں کی اطلاع دی ، حضور اکرم ﷺ نے مجبوراً مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں، رسد اور سامانِ جنگ کی ضرورت پیش آئی تو آپﷺ نے عبداﷲ بن ربیعہ سے جو ابو جہل کے بے مات بھائی تھے اور نہایت دولت مند تھے تیس ہزار درہم قرض لئے
(مسند ابن حنبل بحوالہ سیرت النبی)
رسول اﷲ ﷺ کو جب ہوازن و ثقیف کی پیش قدمی کی خبریں ملیں تو آپﷺ ۶شوال ۸ ہجری ہفتہ کو مکّہ سے حنین کی طرف روانہ ہوئے، آپﷺ کے ہمراہ بارہ ہزارکی فوج تھی جس میں دس ہزار اہلِ مدینہ تھے اور دو ہزار اہل مکّہ ، جن میں اکثریت نو مسلموں کی تھی، صفوان بن اُمیہ جو مکّہ کا رئیس اعظم اور مہمان نوازی میں مشہورتھا؛ لیکن اب تک اسلام نہیں لایاتھااس سے حضور اکرمﷺ نے اسلحہ جنگ مستعار مانگے، اس نے سو زرہیں اور ان کے لوازما ت پیش کئے( شبلی نعمانی) اس کے بعد اس سرو سامان سے حنین کی طرف فوجیں بڑھیں کہ بعض صحابہ کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ" آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے" لیکن بارگاہ ایزدی میں یہ نازش نا پسند تھی ، سورۂ توبہ کی آیت ۴ میں اس کا ذکر ہے :
(ترجمہ ) " بجز ان مشرکو ں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے اورانہوں نے تمہیں ذرا سا نقصان پہنچایا نہ کسی کی تمہارے خلاف مددکی ہے تو تم بھی ان کے معاہدہ کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتاہے "
( سورہ ٔ توبہ : ۴ )
ابوسفیان بن حرب بھی شریک غزوہ تھے، مسلمان سپاہیوں کی زرہوں کی چمک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی، مقدمہ فوج میں گھڑسواروں کا دستہ تھاجس کی نگرانی میں رسد کے باربردار اونٹ بھی تھے ، عرب نے اتنا بڑا لشکر آج تک نہیں دیکھا تھا، دوپہر میں ایک سوار نے آکر بتایاکہ میں نے فلاں پہاڑ پر چڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بنو ہوازن پورے کے پورے آگئے ہیں، ان کے بال بچے اور مویشی بھی ساتھ ہیں ، حضور اکرم ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا " انشااﷲ ! یہ سب کل مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوگا" رات میں حضرت انسؓ بن ابی مرثد نے رضاکارانہ طور پر سنتری کے فرائض انجام دئیے،
حنین جاتے ہوئے راستے میں بیر کا ایک بہت بڑا سرسبز درخت نظرآیا جس کو عرب ایام جاہلیت میں ذات انواط کے نام سے یاد کرتے اور وہاں سالانہ ایک روزہ میلہ لگاتے تھے، اس پر اسلحہ لٹکاتے اور جانور ذبح کرتے، لوگوں نے عرض کیا … یا رسول اﷲ! ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر فرمادیجیے جیسا کہ ان کے لئے ہے، حضور اکرم ﷺ نے اس سوال سے ناراض ہوکر ارشاد فرمایا: تم نے مجھ سے ویساہی کہاہے جیسا کہ قومِ موسیٰ نے کہا تھا کہ ہمارے لئے بھی ایک معبود بنادیجیے جیسے کہ ان کے معبود ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے مجھ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم لوگ ان لوگوں کا راستہ اختیار کروگے جو تم سے پیشتر گذر چکے ہیں، خبردار! ایسے خیالات کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو"
(سیرت النبی- ابن کثیر)
ہر ایک قبیلہ کا دستہ اپنا اپنا علم اٹھائے ہوئے تھا، مہاجرین کے ہمراہ ایک لواء (چھوٹا علم) تھا جسے حضرت علیؓ بن ابی طالب اٹھائے ہوئے تھے اور ایک رایت(بڑا علم) تھا جسے حضرت سعد بن ابی وقاص اٹھائے ہوئے تھے، ایک رایت میں(بڑا علم) حضرت عمرؓ بن الخطاب اٹھائے ہوئے تھے،
خزرج کا لواء(چھوٹا جھنڈا )حضرت خباب بن المنذر اٹھائے ہوئے تھے اور کہا جاتاہے کہ خزرج کا ایک دوسرا لواء حضرت سعدؓ بن عبادہ کے ہمراہ تھا، اوس کا لواء حضرت اسیدؓ بن حضیر کے ہمراہ تھا، اوس و خزرج کے ہر بطن (شاخ قبیلہ )میں لواء یا رایت تھا جسے انہیں کا ایک نامزد شخص اٹھائے ہوئے تھا،

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔