Sunday 18 October 2015

عمرہَ قضاء


امام حاکم کہتے ہیں : یہ خبرتواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب ذی قعدہ کا چاند ہو گیا تو نبیﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اپنے عمرہ کی قضاء کے طور پرعمرہ کریں اور کوئی بھی آدمی جو حدیبیہ میں حاضرتھا پیچھے نہ ہے۔ چنانچہ (اس مدت میں ) جو لوگ شہید ہوچکے تھے انہیں چھوڑ کربقیہ سب ہی لوگ روانہ ہوئے۔ اور اہلِ حدیبیہ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی عمرہ کرنے کے لیے ہمراہ نکلے۔ اس طرح تعدا ددوہزار ہوگئی، عورتیں اور بچے ان کے علاوہ تھے۔( فتح الباری ۷/۷۰۰)
رسول اللہﷺ نے اس موقع پر ابو رھم غفاریؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔ ساٹھ اونٹ ساتھ لیے اور ناجیہ بن جندب اسلمی کو ان کی دیکھ بھال کاکام سونپا۔ ذو الحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا۔ اور لبیک کی صدا لگائی۔ آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی لبیک پکارا۔ اور قریش کی جانب سے بدعہدی کے اندیشے کے سبب ہتھیار اور جنگجو افراد کے ساتھ مستعد ہوکر نکلے۔ جب وادی یَا جِجْ پہنچے تو سارے ہتھیار، یعنی ڈھال ، سپر ، نیزے سب رکھ دیے اور ان کی حفاظت کے لیے اوس بن خولی انصاریؓ کی ماتحتی میں دوسو آدمی وہیں چھوڑ دیے اور سوار کا ہتھیار اور میان میں رکھی ہوئی تلواریں لے کر مکہ میں داخل ہوئے۔( ایضا مع زاد المعاد ۲/۱۵۱)
رسول اللہﷺ مکہ میں داخلے کے وقت اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ مسلمانوں نے تلواریں حمائل کررکھی تھیں اور رسول اللہﷺ کو گھیرے میں لیے ہوئے لبیک پکار رہے تھے۔
مشرکین مسلمانوں کا تماشہ دیکھنے کے لیے (گھروں سے ) نکل کر کعبہ کے شمال میں واقع جبل قعیقعان پر (جابیٹھے تھے ) انہوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس ایک ایسی جماعت آرہی ہے جسے یثرب کے بخار نے توڑ ڈالا ہے۔ اس لیے نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ پہلے تین چکردوڑ کر لگائیں۔ البتہ رکن یمانی اورحجرِ اسود کے درمیان صرف چلتے ہوئے گزریں۔ کُل (ساتوں ) چکر دوڑ کر لگانے کا حکم محض اس لیے نہیں دیا کہ رحمت وشفقت مقصود تھی۔ اس حکم کا منشاء یہ تھا کہ مشرکین آپ کی قوت کا مشاہدہ کرلیں۔( صحیح بخاری ۱/۲۱۸ ، ۲/۶۱۰ ، ۶۱۱ ، صحیح مسلم ۱/۴۱۲) اس کے علاوہ آپ نے صحابہ کرام کو اضطباع کا بھی حکم دیا۔ اضطباع کا مطلب یہ ہے کہ دایاں کندھا کھلارکھیں (اور چادر دا ہنی بغل کے نیچے سے گزارکر آگے پیچھے دونوں جانب سے ) اس کا دوسراکنارہ بائیں کندھے پر ڈال لیں۔
رسول اللہﷺ مکے میں اس پہاڑ ی گھاٹی کے راستے سے داخل ہوئے جو حجون پر نکلتی ہے۔ مشرکین نے آپﷺ کو دیکھنے کے لیے لائن لگا رکھی تھی - آپﷺ مسلسل لبیک کہہ رہے تھے ،یہاں تک کہ (حرم پہنچ کر ) اپنی چھڑی سے حجر اسود کو چھویا، پھر طواف کیا۔ مسلمانوں نے بھی طواف کیا۔ اس وقت حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ تلوار حمائل کیے رسول اللہﷺ کے آگے آگے چل رہے تھے اور رجز کے یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
خـلوا بنی الکفار عن سبـیلـہ خلـوا فکل الخیر فی رسولہ
قد أنزل الرحمـن فـي تـنزیلـہ فی صحف تتلی علی رسولہ
یـا رب إنـي مـؤمــن بـقیـلـہ إني رأیت الحـق فی قبولـــہ
بــان خیـر القتـل فی سبیلــہ الیوم نضـربکــم علی تنزیلہ
ضرباً یزیـل الہـام عن مقیلـہ ویذہــل الخلیـل عن خلیلہ
''کفّار کے پوتو! ان کا راستہ چھوڑ دو۔ راستہ چھوڑ دو کہ ساری بھلائی اس کے پیغمبر ہی میں ہے۔ رحمان نے اپنی تنزیل میں اتارا ہے۔ یعنی ایسے صحیفوں میں جن کی تلاوت اس کے پیغمبر پر کی جاتی ہے۔ اے پروردگار ! میں ان کی باتوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اور اسے قبول کرنے ہی کو حق جانتا ہوں کہ بہترین قتل وہ ہے جو اللہ کی راہ میں ہو۔ آج ہم اس کی تنزیل کے مطابق تمہیں ایسی مارمار یں گے کہ کھوپڑی اپنی جگہ سے جھٹک جائے گی ، اور دوست کو دوست سے بے خبر کردے گی۔''(روایات کے اندر ان اشعار اور ان کی ترتیب میں بڑا اضطراب ہے۔ ہم نے متفرق اشعار کو یکجا کردیا ہے۔)
حضرت انسؓ کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ اس پر حضرت عمر بن خطابؓ نے کہا : اے ابن رواحہ ! تم رسول اللہﷺ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر کہہ رہے ہو ؟ نبیﷺ نے فرمایا : اے عمر ! انہیں رہنے دو۔ کیونکہ یہ ان کے اندرتیر کی مار سے بھی زیادہ تیز ہے۔( جامع ترمذی ، ابواب الاستیذان والادب ، باب ماجاء فی انشاد الشعر ۲/۱۰۷)
رسول اللہﷺ اور مسلمانوں نے تین چکر دوڑ کر لگائے۔ مشرکین نے دیکھا تو کہنے لگے : یہ لوگ جن کے متعلق ہم سمجھ رہے تھے کہ بخار نے انہیں توڑ دیا ہے یہ تو ایسے اور ایسے لوگوں سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔( صحیح مسلم ۱/۴۱۲)
طواف سے فارغ ہوکر آپﷺ نے صَفا ومَرَوہ کی سعی کی۔ اس وقت آ پﷺ کی ہدی یعنی قربانی کے جانور مَرَوہ کے پاس کھڑے تھے۔ آپﷺ نے سعی سے فارغ ہوکرفرمایا : یہ قربان گاہ ہے اور مکے کی ساری گلیاں قربان گاہ ہیں۔ اس کے بعد مَرَوہ ہی کے پاس جانوروں کو قربان کردیا، پھر وہیں سر منڈایا۔ مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کو یَا جِجْ بھیج دیا گیا کہ وہ ہتھیاروں کی حفاظت کریں اور جولوگ حفاظت پر مامور تھے وہ آکر اپنا عمرہ ادا کرلیں۔
رسول اللہﷺ نے مکہ میں تین روز قیام فرمایا تھا۔ چوتھے دن صبح ہوئی تو مشرکین نے حضرت علیؓ کے پاس آکر کہا ،: اپنے صاحب سے کہو کہ ہمارے یہاں سے روانہ ہوجائیں۔ کیونکہ مدت گزرچکی ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ مکہ سے نکل آئے اور مقام سرف میں اتر کر قیام فرمایا۔
اس عمرہ کا نام عمرہ ٔ قضاء یا تو اس لیے پڑا کہ یہ عمرہ ٔ حدیبیہ کی قضا کے طور پر تھا یا اس لیے کہ یہ حدیبیہ میں طے کردہ صلح کے مطابق کیا گیا تھا۔ (اوراس طرح مصالحت کو عربی میں قضا اورمقاضاۃ کہتے ہیں ) اس دوسری وجہ کومحققین نے راجح قراردیا ہے۔ نیز اس عمرہ کو چار نام سے یاد کیا جاتا ہے ! عمرہ ٔ قضا، عمرۂ قضیہ ، عمرۂ قصاص اور عمرۂ صلح۔( زاد المعاد ۲/۱۷۲ ، فتح الباری ۷/۵۰۰)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔