حضوراکرم ﷺ ابھی بیت اللہ کے اندر ہی تھے کہ مسجد حرام میں لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور مسجد کھچا کھچ بھر گئی، وہ سب اپنی قسمتوں کا فیصلہ سننے کے لئے منتظر تھے کہ اتنے میں حضوراکرم ﷺکعبہ کے دروازہ سے باہر تشریف لائے اور کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا !
" اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھا یا اپنے بندہ کی مدد کی اور دشمنوں کے تمام جتھوں کو تنہا شکست دی ، سنو اور آگاہ ہو جاؤ ! بجز کلید برداری کعبہ اور سقایت حجاج ( حاجیوں کو پانی پلانا ) ہر موروثی استحقاق ‘ ہر دعویٰ خون و مال دونوں میرے ان دونوں قدموں تلے ہیں"
ائے قریش کے لوگو ! آج اللہ تعالیٰ نے تمہارے جاہلانہ گھمنڈ، غرور اور نسب کے تفاخر کو خاک میں ملا دیا ہے، سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہوئے تھے ، پھر سورۂ حجرات کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
(ترجمہ ) " ائے انسانو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبائل میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرےکو پہچان سکو ، تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ وہی محبوب ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو ، بے شک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے"
( سورۂ حجرات : ۱۳ )
اس کے بعدحضوراکرم ﷺنے مسجد حرام میں جمع ہونے والے افراد سے پوچھا :
اے گروہ قریش ! تمہیں کچھ معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں ، سب نے جواب دیا آپﷺ شریف النفس بھائی اور شریف النفس بھائی کے فرزند ہیں، آپﷺ سے خیر ہی کی توقع ہے،
حاضرین میں ظالم، سفاک و قاتل بھی تھے اور حضور ﷺ کو طرح طرح کی تکا لیف دینے والے بھی تھے ،جو راستہ میں کانٹے بچھا یا کرتے ، بیت اللہ میں عبادت سے روکنے والے بے بس مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے، شعب ابو طالب میں دانہ پانی بند کرنے والے ، دوسروں کو لڑائی پر اکسا کر مدینہ پر حملہ کرنے والے غرض کہ ہر طرح کے بد خواہ اور ظالم موجود تھے جو آج بہ حیثیت مجرم سر جھکائے حضور ﷺ کے سامنے کھڑے تھے اور انہیں توقع تھی کہ ان کے مظالم کا جواب ان کا قتل ہی ہوگا ، لیکن ہمت کر کے انہوں نے جواب دیاکہ آپﷺ سے خیر ہی کی توقع ہے ، یہ جواب سن کر رحمۃ للعالمین نے فرمایا:
" آج تم سب کے سب آزاد ہو ، تم سے کوئی باز پرس نہیں ، اللہ تعالیٰ بھی تم کو معاف فرمائے ، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے، آئندہ کے لئے نہ کوئی قول و قرار نہ حال کے لئے کوئی شرط نہ ماضی کا کوئی مواخذہ "
اس عفو عام سے سولہ بد قسمت مستثنیٰ تھے جن کے جرائم حضوراکرم ﷺ کی نظر میں نا قابل معافی تھے، ان کی دین اسلام کے خلاف مسلسل مجرمانہ سر گرمیوں کے پیش نظر انہیں قابل گردن زدنی قرار دیا گیا، انہیں عفو عام سے مستثنیٰ قرار دے کر ان کا خون مباح کردیا گیا، ارشاد نبوی ہوا کہ انہیں جہاں کہیں ملیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے چاہے وہ غلاف کعبہ ہی سے لپٹے ہوئے کیوں نہ ہوں ۔ مختلف صحابہؓ کی سفارش پر ان میں سے کچھ مردوں اور تین عورتوں کی جان بخشی ہو گئی ، کچھ کو قتل کیا گیا وہ یہ ہیں
1۔ عبدالعزیٰ بن اخطل مشہور دشمن اسلام، یہ پہلے مسلمان ہوگیا تھا، اس کو حضور ﷺ نے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا، اس کے ساتھ ایک انصاری صحابی اور ایک رُومی غلام تھا، راستہ میں رُومی غلام کو اس نے قتل کرڈالا اور مرتد ہوکر مکّہ بھاگ گیاتھا، فتح مکّہ کے موقع پر معافی کے خیال سے کعبہ کا پردہ پکڑ لیاتھا لیکن اس کو وہاں بھی پناہ نہ ملی،سعد ؓبن حریث مخزومی اور ابو بردہ اسلمی ؓ نے اس کو قتل کردیا،
۔2 قرنتی یا اُم سعدہجو گو مغنیہ ابن اخطل کی لونڈیاں ، بعض مورخوں نے دونوں لونڈیا ں لکھی ہیں ، ان کے نام ارنب اور اُم سعد تھے ، یہ دونوں قتل کی گئیں،
3۔مقیس بن صابہ مشہور دشمن اسلام، مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیاتھا، غزوۂ خندق کے موقع پر آیا اور ایک انصاری کو قتل کرکے بھاگ گیاتھا اس کو حضرت نمیلہؓ بن عبداﷲ لیثی نے قتل کیا،
حُویرث بن نضیل بن وہب مشہور دشمن اسلام جو ہجرت سے قبل حضور ﷺ کو بہت ایذائیں دیتاتھا، حضرت علیؓ نے اسے قتل کیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔