مسلمانوں نے آخری رات جس کی صبح جنگ شروع ہوئی خیبر کے قریب گذاری لیکن یہودیو ں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ نبیﷺ کا دستور تھا کہ جب رات کے وقت کسی قوم کے پاس پہنچتے تو صبح ہوئے بغیر ان کے قریب نہ جاتے۔ چنانچہ اس رات جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے غلس (اندھیرے ) میں فجر کی نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد مسلمان سوار ہوکر خیبر کی طرف بڑھے۔ ادھر اہل خیبر بے خبری میں اپنے پھاوڑے اور کھانچی وغیرہ لے کر اپنی کھیتی باڑی کے لیے نکلے تو اچانک لشکر دیکھ کر چیختے ہوئے شہر کی طرف بھاگے کہ اللہ کی قسم! محمد لشکر سمیت آگئے ہیں۔
نبیﷺ نے (یہ منظر دیکھ کر ) فرمایا:اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہوا۔ اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترپڑتے ہیں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بُری ہوجاتی ہے۔ـ(صحیح بخاری : باب غزوہ خیبر ۲/۶۰۳ ، ۶۰۴)
خیبر کی آبادی دو منطقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک منطقے میں حسب ذیل پانچ قلعے تھے:
حصن ناعم
حصن صعب بن معاذ
حصن قلعہ زبیر
حصن ابی
حصن نزار
ان میں سے مشہور تین قلعوں پر مشتمل علاقہ نطاۃ کہلاتا تھا۔ اور بقیہ دوقلعوں پر مشتمل علاقہ شق کے نام سے مشہور تھا۔ خیبر کی آبادی کا دوسرا منطقہ کَتیبَہ کہلاتا تھا۔ اس میں صرف تین قلعے تھے :
حصن قموص (یہ قبیلہ بنو نضیر کے خاندان ابو الحقیق کا قلعہ تھا۔ )
حصن وطیح
حصن سلالم
ان آٹھ قلعوں کے علاوہ خیبر میں مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں، مگر وہ چھوٹی تھیں اور قوت وحفاظت میں ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں۔
جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو وہ صرف پہلے منطقے میں ہوئی۔ دوسرے منطقے کے تینوں قلعے لڑنیوالوں کی کثرت کے باوجود جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے۔
نبیﷺ نے لشکر کے پڑاؤ کے لیے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا۔ اس پر حباب بن منذرؓ نے آکر عرض کیا یارسول اللہ ! یہ بتلایئے کہ اس مقام پر اللہ نے آپ کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا ہے یایہ محض آپ کی جنگی تدبیر اور رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں یہ محض ایک رائے اور تدبیر ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! یہ مقام قلعہ ٔنطاۃ سے بہت ہی قریب ہے اور خیبر کے سارے جنگ جو افراد اسی قلعے میں ہیں۔ انہیں ہمارے حالات کا پورا پورا علم رہے گا اور ہمیں ان کے حالات کی خبر نہ ہوگی۔ ان کے تیر ہم تک پہنچ جائیں گے۔ اور ہمارے تیر ان تک نہ پہنچ سکیں گے۔ ہم ان کے شبخون سے بھی محفوظ نہ رہیں گے۔ پھر یہ مقام کھجوروں کے درمیا ن ہے۔ پستی میں واقع ہے۔ اور یہاں کی زمین بھی وبائی ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ کسی ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے کا حکم فرمائیں جو ان مفاسد سے خالی ہو۔ اور ہم اسی جگہ منتقل ہوکر پڑاؤ ڈالیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم نے جورائے دی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد آپ دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔
جس رات خیبر کی حدود میں رسول اللہﷺ داخل ہوئے فرمایا : میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اور جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہر ایک یہی آرزو باندھے اور آس لگائے تھا کہ جھنڈا اسے مل جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ صحابہ نے کہا: یارسول اللہ ! ان کی تو آنکھ آئی ہوئی ہے۔( اسی بیماری کی وجہ سے پہلے پہل آپ پیچھے رہ گئے تھے، پھر لشکر سے جاملے) فرمایا : انہیں بلالاؤ۔ وہ لائے گئے۔ رسول اللہﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب ِ دہن لگایا اور دعا فرمائی۔ وہ شفایاب ہوگئے، گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر انہیں جھنڈا عطافرمایا۔
انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں ان سے اس وقت تک لڑوں کہ وہ ہمارے جیسے ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا : اطمینان سے جاؤ یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترو۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دو۔ اور اسلام میں اللہ کے جو حقوق ان پر واجب ہوتے ہیں ان سے آگاہ کرو۔ واللہ تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کوبھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۵ ، ۶۰۶ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبر کے ایک قلعے کی فتح میں متعدد کوششوں کی ناکامی کے بعد حضرت علی کو جھنڈا دیا گیا تھا لیکن محققین کے نزدیک راجح وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔