Sunday, 18 October 2015

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت اور فتح


انتہائی شجاعت وبسالت اور زبردست جاں بازی وجاں سپاری کے باوجود یہ بات انتہائی تعجب انگیز تھی کہ مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر رُومیوں کے اس لشکر ِ جرار کی طوفانی لہروں کے سامنے ڈٹا رہ جائے۔ لہٰذا اس نازک مرحلے میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے مسلمانوں کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے جس میں وہ خود کود پڑے تھے ، اپنی مہارت اور کمال ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔
تمام روایات پر نظر ڈالنے سے صورت حال یہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پہلے روز حضرت خالد بن ولیددن بھر رومیوں کے مد مقابل ڈٹے رہے۔ لیکن وہ ایک ایسی جنگی چال کی ضرورت محسوس کررہے تھے جس کے ذریعہ رومیوں کو مرعوب کر کے اتنی کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کو پیچھے ہٹالیں کہ رومیوں کو تعاقب کی ہمت نہ ہو۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے اور رومیوں نے تعاقب شروع کردیا ، تو مسلمانوں کو ان کے پنجے سے بچانا سخت مشکل ہوگا۔
چنانچہ جب دوسرے دن صبح ہوئی تو انہوں نے لشکر کی ہیئت اور وضع تبدیل کردی اور اس کی ایک نئی ترتیب قائم کی۔ مقدمہ (اگلی لائن ) کو ساقہ (پچھلی لائن )اور ساقہ کو مقدمہ کی جگہ رکھ دیا۔ اور میمنہ کو مَیْسَرَہ اور میسرہ کو میمنہ سے بدل دیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر دشمن چونک گیا اور کہنے لگا کہ انہیں کمک پہنچ گئی ہے۔ غرض رومی ابتداہی میں مرعوب ہوگئے۔ ادھر جب دونوں لشکرکا آمنا سامنا ہوا اور کچھ دیر تک جھڑپ ہوچکی تو حضرت خالد بن ولید نے اپنے لشکر کا نظام محفوظ رکھتے ہوئے مسلمانوں کوتھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹانا شروع کیا لیکن رومیوں نے اس خوف سے ان کا پیچھا نہ کیا کہ مسلمان دھوکا دے رہے ہیں اور کوئی چال چل کر انہیں صحراکی پہنائیوں میں پھینک دینا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن اپنے علاقہ میں واپس چلاگیا اور مسلمانوں کے تعاقب کی بات نہ سوچی۔ ادھر مسلمان کامیابی اورسلامتی کے ساتھ پیچھے ہٹے اور بھر مدینہ واپس آگئے۔ فتح الباری ۷/۵۱۳ ، ۵۱۴ ، زاد المعاد ۲/۱۵۶ ، معرکے کی تفصیل سابقہ مآخذ سمیت ان دونوں مآخذ سے لی گئی ہے۔
اس جنگ میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ رومیوں کے مقتولین کی تعداد کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ جنگ کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب تنہا حضرت خالد کے ہاتھ میں نو تلوار یں ٹوٹ گئیں تو مقتولین اور زخمیوں کی تعداد کتنی رہی ہوگی۔
موتہ کے معرکے کا اثر :
اس معرکے کی سختیاں جس انتقام کے لیے جھیلی گئی تھیں ، مسلمان اگرچہ وہ انتقام نہ لے سکے ، لیکن اس معرکے نے مسلمانوں کی ساکھ اور شہرت میں بڑا اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے سارے عرب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کیونکہ رومی اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑی قوت تھے۔ عرب سمجھتے تھے کہ ان سے ٹکرانا خودکشی کے مترادف ہے۔ اس لیے تین ہزار کی ذرا سی نفری کا دولاکھ کے بھاری بھرکم لشکر سے ٹکرا کر کوئی قابل ذکر نقصان اٹھائے بغیر واپس آجانا عجوبۂ روزگار سے کم نہ تھا۔ اور اس سے یہ حقیقت بڑی پختگی کے ساتھ ثابت ہوتی تھی کہ عرب اب تک جس قسم کے لوگوں سے واقف اور آشنا تھے ، مسلمان ان سے الگ تھلگ ایک دوسری ہی طرز کے لوگ ہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے مویّد ومنصور ہیں اور ان کے راہنما واقعتااللہ کے رسول ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ضدی قبائل جو مسلمانوں سے مسلسل برسرِپیکار رہتے تھے ، اس معرکے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ چنانچہ بنو سلیم ، اشجع ، غطفان ، ذیبان اور فزارہ وغیرہ قبائل نے اسلام قبول کرلیا۔
یہی معرکہ ہے جس سے رومیوں کے ساتھ خونریز ٹکر شروع ہوئی ،جو آگے چل کر رومی ممالک کی فتوحات اور دُور دراز علاقوں پر مسلمانوں کے اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔