Monday 19 October 2015

مکہ میں خون ریزی کی حرمت کا اعلان اور بیعت


فتح کے روز تمام مسلمان حضوراکرم ﷺ کے ساتھ عشاء سے فجر تک خانہ کعبہ میں تکبیر و تسبیح اور طواف کعبہ میں مصروف رہے، دوسرے دن حضور ﷺ نے پھر اہل مکہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نو مسلموں کی بڑی تعداد شامل تھی ، حضور ﷺ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچائی گئی کہ بنو خزاعہ نے انتقامی کارروائی کے طور پر بنی لیث کے ایک آدمی کوقتل کر دیا ہے ، یہ سنتے ہی آپﷺقصویٰ پر سوار ہوئے اور حمدو ثناء کے بعد ارشاد فرمایا :
" اب ہجرت نہیں رہی لیکن جہاد باقی ہے ، ہجرت کی نیت باقی رہے گی ، جب تم کو جہاد کے لئے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو بے شک اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو اس دن سے حرمت دی ہے جس دن آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا اور وہ قیامت تک کے لئے حرم ہے ، بے شک اللہ نے مکہ سے ہاتھی والوں کو روک دیا تھا؛ لیکن اللہ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کو اہل مکہ پر تسلط دے دیا ، خبر دار ہو جاؤ ، نہ مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لئے یہاں خونریزی حلال ہوئی اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گی ، خبر دار ہو جاؤ میرے لئے بھی کچھ دیر کے لئے حلال ہوئی تھی، اب وہ بدستور قیامت تک کے لئے حرام ہے، نہ یہاں کا کانٹا توڑا جائے نہ درخت کاٹا جائے نہ شکار بھگایا جائے نہ یہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے، البتہ اس کا اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے ، اس شخص کا کوئی عزیز قتل ہو جائے اُسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے ، خواہ وہ بدلہ لے لے یا خوں بہا لے لے ، حضرت عباسؓ نے عرض کیا ! ائے اللہ کے رسول… اذخر گھاس کے کاٹنے کو مستثنیٰ فرمادیجئے؛ کیونکہ وہ ہمارے گھروں لوہاروں اور قبروں کے کام آتی ہے ، یہ سن کرحضوراکرم ﷺ خاموش ہوگئے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آپﷺ کی زبان سے نکلا … " مگر اذخر مگر اذخر "
جب آپ ﷺ کا خطاب ختم ہو ا تو یمن کاایک شخص ابو شاہ آگے بڑھا اور درخواست کی کہ یا رسول اللہ…یہ خطبہ مجھے لکھوا دیجئے ، آپﷺ نے ارشاد فرمایا ! یہ خطبہ لکھ کر دیدو،
فتح کے دوسرے روز حضوراکرم ﷺ نے خطاب میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا :
" یقیناً مکہ کو اللہ نے حرمت دی ہے نہ کہ ان انسانوں نے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُس کے لئے حلا ل نہیں کہ یہاں خون ریزی کرے یا یہا ں کا درخت کاٹے ، اگر کوئی شخص اللہ کے رسول کے قتال کی بنیادپر ( یہاں قتال کرنا ) جائز سمجھے تو اس سے کہو کہ یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دیدی تھی، اب پھر اس کی حرمت بدستور اسی طرح لوٹ آئی جس طرح ( میرے قتال سے پہلے) تھی ، حاضر کو چاہئیے کہ غائب کو یہ حدیث پہنچا دے"
بنو اسد کے لوگوں نے عرض کیا کہ مکہ ولوں سے بیعت لی جائے ، حضوراکرم ﷺ نے قرن مستقبلہ کے قریب تشریف فرما ہو کر ان سے اسلام کی بیعت لی، جب لوگوں کا ہجوم بڑھ گیا تو کوہ صفا پر ان سے بیعت لی، اس وقت حضرت عمرؓ بن خطاب بائیں جانب کھڑے ہو کر ہر شخص سے بیعت کے الفاظ سن رہے تھے ،
مردوں سے بیعت لینے کے بعد عورتوں سے بیعت لینے کی باری آئی تو اُن سے اقرار اسلام کے بعد ایک پانی سے بھرے بر تن میں حضور اکرم ﷺ اپنا دست مبارک ڈبو کر نکال لیتے پھر خواتین اس میں اپنا ہاتھ ڈالتیں، عورتوں کے ہجوم میں حضرت ابو سفیان ؓ کی بیوی ہند نقاب پہن کر آئی، اس لئے کہ اس کو اپنے سابقہ کرتو ت کی بناء پر اپنی جان جانے کا ڈر تھا اور اس کے قتل کو مباح قرار دے دیا گیاتھا ، جب وہ قریب آئی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا عہد کرو کہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ بناؤ گی، عرض کیا ، یا رسول اللہ ! آپ میرے پچھلے اعمال پر مواخذہ تو نہیں فرمائیں گے ، فرمایا ان اعمال پر توبہ کرو اللہ معاف کرنے والاہے ، پھر اس نے نقاب الٹ کر کہا کہ میں ہند ہوں، آپﷺ نے فرمایا تو مسلمان ہو گئی بہت اچھا ہوا، عرض کیا کہ میں آپﷺ کے دست مبارک میں ہاتھ دے کر بیعت کرنا چاہتی ہوں، فرمایا میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے ایک بکری کا بچہ ہدیہ میں بھیجا، اس کے بعد آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ بقیہ عورتوں سے بیعت لیں ، بیعت کے الفاظ یہ تھے :
" اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک نہ بناؤگی ، اپنی اولادکو قتل نہ کروگی ، چوری اور زنا نہ کرو گی"
مکہ سے بتوں کو پاک کرنے کے بعد گرد و نواح میں جتنے بت تھے وہ سب گرا دئے گئے اور اعلان کر دیا گیا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص اپنے گھر میں بت نہ رکھے ،
مکہ ۲۰ رمضان المبارک کو فتح ہوا، اس کے بعد حضور ﷺ پندرہ دن اور وہاں رہے، حضرت عبداللہ ؓ بن عباس کی روایت ہے کہ (۱۹) روز رہے ، جتنے دن رہے قصر نماز پڑھتے رہے، روزوں کی بھی قضاء فرمائی، آپﷺ کے قیام سے انصار کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ اب شائد آپﷺ مکّہ ہی میں رہیں گے اور مدینہ واپس نہ جائیں گے
(تاریخ اسلام- اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔