اسی صبح -منگل ۱۷/رمضان ۸ ھ کی صبح - رسول اللہﷺ مر الظہران سے مکہ روانہ ہوئے اور حضرت عباس کو حکم دیا کہ ابو سفیان کو وادی کی تنگنائے پر پہاڑکے ناکے کے پاس روک رکھیں تاکہ وہاں سے گزرنے والی الٰہی فوجوں کو ابو سفیان دیکھ سکے۔ حضرت عباس نے ایسا ہی کیا۔ ادھر قبائل اپنے اپنے پھریرے لیے گزر رہے تھے۔ جب وہاں سے کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب میں حضرت عباس - بطورِ مثال- کہتے کہ بنو سلیم ہیں۔ تو ابوسفیان کہتا کہ مجھے سلیم سے کیا واسطہ ؟ پھر کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ اے عباس !یہ کون لوگ ہیں ؟ وہ کہتے: مُزَیْنَہ ہیں۔ ابو سفیان کہتا:، مجھے مزینہ سے کیا مطلب ؟ یہاں تک کہ سارے قبیلے ایک ایک کرکے گزر گئے۔ جب بھی کوئی قبیلہ گزرتا توابو سفیان حضرت عباس سے اس کی بابت ضرور دریافت کرتا اور جب وہ اسے بتاتے تو وہ کہتا کہ مجھے بنی فلاں سے کیا واسطہ ؟
یہاں تک کہ رسول اللہﷺ اپنے سبز دستے کے جلو میں تشریف لائے۔ آپ مہاجرین وانصار کے درمیان فروکش تھے۔ یہاں انسانوں کے بجائے صرف لوہے کی باڑھ دکھائی پڑرہی تھی۔ ابو سفیان نے کہا : سبحان اللہ ! اے عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ انصار ومہاجرین کے جلو میں رسول اللہﷺ تشریف فرماہیں۔ ابو سفیان نے کہا : بھلا ان سے محاذآرائی کی طاقت کسے ہے ؟ اس کے بعد اس نے مزید کہا کہ ابو الفضل ! تمہارے بھتیجے کی بادشاہت تو واللہ بڑی زبردست ہوگئی۔ حضرت عباسؓ نے کہا : ابو سفیان ! یہ نبوت ہے۔ ابو سفیان نے کہا: ہاں ! اب تو یہی کہاجائے گا۔
اس موقع پر ایک واقعہ اور پیش آیا۔ انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس تھا۔ وہ ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو بولے:
الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الحرمۃ
''آج خونریزی اور مار دھاڑ کادن ہے۔ آج حرمت حلال کرلی جائے گی۔''
آج اللہ نے قریش کی ذلت مقدر کردی ہے۔ اس کے بعد جب وہاں سے رسول اللہﷺ گزرے تو ابو سفیان نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ نے وہ بات نہیں سنی جو سعد نے کہی ہے ؟ آپ نے فرمایا :سعد نے کیا کہا ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: یہ اور یہ بات کہی ہے۔ یہ سن کر حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں سعد قریش کے اندر مار دھاڑ نہ مچا دیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : نہیں بلکہ آج کا دن وہ دن ہے جس میں کعبہ کی تعظیم کی جائے گی۔ آج کا دن وہ دن ہے جس میں اللہ قریش کو عزت بخشے گا۔ اس کے بعد آپ نے حضرت سعد کے پاس آدمی بھیج کر جھنڈا ان سے لے لیا اور ان کے صاحبزادے قیس کے حوالے کردیا۔ گویا جھنڈا حضرت سعد کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔