حضرت سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبیﷺ کے ہمراہ خیبر روانہ ہوئے۔ رات میں سفر طے ہورہا تھا۔ ایک آدمی نے عامر سے کہا : اے عامر ! کیوں نہ ہمیں اپنے کچھ نوادرات سناؤ -عامر شاعر تھے - سواری سے اترے اور قوم کی حدی خوانی کرنے لگے۔ اشعار یہ تھے:
اللہم لولا أنت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینـا
فـاغفر فداء لک ما اتقینا وثبت الأقدام إن لاقینا
وألقیــن سکینــۃ علینــا إنــا إذا صیح بنـا أبینـا
وبالصیـاح عولـوا علینـــا
''اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے۔ ہم تجھ پر قربان ! تو ہمیں بخش دے۔ جب تک ہم تقویٰ اختیار کریں۔ اور اگر ہم ٹکرائیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور ہم پر سکینت نازل فرما۔ جب ہمیں للکارا جاتا ہے تو ہم اکڑجاتے ہیں، اور للکار میں ہم پر لوگوں نے اعتماد کیا ہے۔''
رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ کون حدی خوان ہے ؟ لوگوں نے کہا: عامر بن اکوع۔ آپﷺ نے فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے۔ قوم کے ایک آدمی نے کہا : اب تو (ان کی شہادت ) واجب ہوگئی۔ آپ نے ان کے وجود سے ہمیں بہرہ ورکیوں نہ فرمایا۔( صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵)
صحابہ کرام کو معلوم تھا کہ( جنگ کے موقع پر )رسول اللہﷺ کسی انسان کے لیے خصوصیت سے دعائے مغفرت کریں تو وہ شہید ہوجاتا ہے۔( صحیح مسلم ۲/۱۱۵)اور یہی واقعہ جنگِ خیبر میں (حضرت عامر کے ساتھ ) پیش آیا۔ (اسی لیےانہوں نے یہ عرض کی تھی کہ کیوں نہ ان کے لیے درازیٔ عمر کی دعا کی گئی کہ ان کے وجود سے ہم مزید بہرہ ور ہوتے)
خیبر کے بالکل قریب وادی ٔ صہباء میں آپﷺ نے عصر کی نماز پڑھی۔ پھر توشے منگوائے تو صرف ستو لایا گیا۔ آپﷺ کے حکم سے سانا گیا۔ پھر آپﷺ نے کھایا اور صحابہ نے بھی کھایا۔ اس کے بعد آپﷺ مغرب کے لیے اُٹھے تو صرف کلی کی۔ صحابہ نے بھی کلی کی۔ پھر آپﷺ نے نماز پڑھی اوروضو نہیں فرمایا۔ (پچھلے ہی وضو پر اکتفا کیا۔ )پھر آپﷺ نے عشاء کی نماز ادا فرمائی۔( مغازی الواقدی (غزوہ خیبر ص ۱۱۲)
نیز جب آپﷺ خیبر کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ شہر دکھائی پڑنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ۔ لشکر ٹھہر گیا۔ اور آپﷺ نے یہ دعا فرمائی :
(( اللہم رب السماوات السبع وما أظللن، ورب الأرضین السبع وما أقللن، ورب الشیاطین وما أضللن فإنا نسألک خیر ہذہ القریۃ وخیر أہلہا وخیر ما فیہا، ونعوذ بک من شر ہذہ القریۃ وشر أہلہا وشر ما فیہا ۔))
''اے اللہ ! ساتوں آسما ن ، اور جن پروہ سایہ فگن ہیں ، ان کے پروردگار ! اور ساتوں زمین ، اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے پروردگار ! اور شیاطین ، اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ، ان کے پروردگار! ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی ، اس کے باشندوں کی بھلائی اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں۔ اور اس بستی کے شر سے ، اس کے باشندوں کے شر سے ، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔'' (ابن ہشام ۲/۳۲۹)
اللہم لولا أنت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینـا
فـاغفر فداء لک ما اتقینا وثبت الأقدام إن لاقینا
وألقیــن سکینــۃ علینــا إنــا إذا صیح بنـا أبینـا
وبالصیـاح عولـوا علینـــا
''اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے۔ ہم تجھ پر قربان ! تو ہمیں بخش دے۔ جب تک ہم تقویٰ اختیار کریں۔ اور اگر ہم ٹکرائیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور ہم پر سکینت نازل فرما۔ جب ہمیں للکارا جاتا ہے تو ہم اکڑجاتے ہیں، اور للکار میں ہم پر لوگوں نے اعتماد کیا ہے۔''
رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ کون حدی خوان ہے ؟ لوگوں نے کہا: عامر بن اکوع۔ آپﷺ نے فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے۔ قوم کے ایک آدمی نے کہا : اب تو (ان کی شہادت ) واجب ہوگئی۔ آپ نے ان کے وجود سے ہمیں بہرہ ورکیوں نہ فرمایا۔( صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵)
صحابہ کرام کو معلوم تھا کہ( جنگ کے موقع پر )رسول اللہﷺ کسی انسان کے لیے خصوصیت سے دعائے مغفرت کریں تو وہ شہید ہوجاتا ہے۔( صحیح مسلم ۲/۱۱۵)اور یہی واقعہ جنگِ خیبر میں (حضرت عامر کے ساتھ ) پیش آیا۔ (اسی لیےانہوں نے یہ عرض کی تھی کہ کیوں نہ ان کے لیے درازیٔ عمر کی دعا کی گئی کہ ان کے وجود سے ہم مزید بہرہ ور ہوتے)
خیبر کے بالکل قریب وادی ٔ صہباء میں آپﷺ نے عصر کی نماز پڑھی۔ پھر توشے منگوائے تو صرف ستو لایا گیا۔ آپﷺ کے حکم سے سانا گیا۔ پھر آپﷺ نے کھایا اور صحابہ نے بھی کھایا۔ اس کے بعد آپﷺ مغرب کے لیے اُٹھے تو صرف کلی کی۔ صحابہ نے بھی کلی کی۔ پھر آپﷺ نے نماز پڑھی اوروضو نہیں فرمایا۔ (پچھلے ہی وضو پر اکتفا کیا۔ )پھر آپﷺ نے عشاء کی نماز ادا فرمائی۔( مغازی الواقدی (غزوہ خیبر ص ۱۱۲)
نیز جب آپﷺ خیبر کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ شہر دکھائی پڑنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ۔ لشکر ٹھہر گیا۔ اور آپﷺ نے یہ دعا فرمائی :
(( اللہم رب السماوات السبع وما أظللن، ورب الأرضین السبع وما أقللن، ورب الشیاطین وما أضللن فإنا نسألک خیر ہذہ القریۃ وخیر أہلہا وخیر ما فیہا، ونعوذ بک من شر ہذہ القریۃ وشر أہلہا وشر ما فیہا ۔))
''اے اللہ ! ساتوں آسما ن ، اور جن پروہ سایہ فگن ہیں ، ان کے پروردگار ! اور ساتوں زمین ، اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے پروردگار ! اور شیاطین ، اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ، ان کے پروردگار! ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی ، اس کے باشندوں کی بھلائی اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں۔ اور اس بستی کے شر سے ، اس کے باشندوں کے شر سے ، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔'' (ابن ہشام ۲/۳۲۹)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔