Sunday, 18 October 2015

اموالِ غنیمت کی تقسیم


رسول اللہﷺ نے یہود کو خیبر سے جلاوطن کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اور معاہدہ میں یہی طے بھی ہوا تھا۔ مگر یہود نے کہا : اے محمد ! ہمیں اسی سرزمین میں رہنے دیجیے۔ ہم اس کی دیکھ ریکھ کریں گے۔ کیونکہ ہمیں آپ لوگوں سے زیادہ اس کی معلومات ہیں۔ ادھر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس اتنے غلام نہ تھے جو اس زمین کی دیکھ ریکھ اور جوتنے بونے کاکام کرسکتے اور نہ خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اتنی فرصت تھی کہ یہ کام سر انجام دے سکتے۔ اس لیے آپ نے خیبر کی زمین اس شرط پر یہود کے حوالے کردی کہ ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا یہود کو دیا جائے گا۔ اور جب تک رسول اللہﷺ کی مرضی ہوگی اس پر برقرار رکھیں گے (اور جب چاہیں گے جلاوطن کردیں گے ) اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگایا کرتے تھے۔
خیبر کی تقسیم اس طرح کی گئی کہ اسے ۳۶ حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ ہر حصہ ایک سو حصوں کا جامع تھا۔ اس طرح کل تین ہزار چھ سو (۳۶۰۰ ) حصے ہوئے۔ اس میں سے نصف، یعنی اٹھارہ سو حصے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کے تھے۔ عام مسلمانوں کی طرح رسول اللہﷺ کا بھی صرف ایک ہی حصہ تھا۔ باقی یعنی اٹھارہ سو حصوں پر مشتمل دوسرا نصف، رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات و حوادث کے لیے الگ کر لیا تھا۔ اٹھارہ سو حصوں پر خیبر کی تقسیم اس لیے کی گئی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل حدیبیہ کے لیے ایک عطیہ تھا۔ جو موجود تھے ان کے لیے بھی اور جو موجود نہ تھے ان کے لیے بھی۔ اور اہل حدیبیہ کی تعداد چودہ سو تھی۔ جو خیبر آتے ہوئے اپنے ساتھ دو سو گھوڑے لائے تھے۔ چونکہ سوار کے علاوہ خود گھوڑے کو بھی حصہ ملتا ہے۔ اور گھوڑے کا حصہ ڈبل، یعنی دو فوجیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اس لیے خیبر کو اٹھارہ سو حصوں پر تقسیم کیا گیا تو دوسو شہ سواروں کو تین تین حصے کے حساب سے چھ سو ملے تھے۔ اور بارہ سو پیدل فوج کو ایک ایک حصے کے حساب سے بارہ سو حصے ملے۔( زاد المعاد ۲/۱۳۷، ۱۳۸ ، مع توضیح)
خیبر کے اموال غنیمت کی کثرت کا اندازہ صحیح بخاری میں مروی ابن عمرؓ کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ انہوں نے فرمایا'' ہم لوگ آسودہ نہ ہوئے یہاں تک کہ ہم نے خیبر فتح کیا۔ ''نیز جب رسول اللہﷺ مدینہ واپس تشریف لائے تو مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کردیے جو انصار نے امداد کے طور پر انہیں دے رکھے تھے۔ کیونکہ اب ان کے لیے خیبر میں مال اور کھجور کے درخت ہوچکے تھے۔( زاد المعاد ۲/۱۴۸ صحیح مسلم ۲/۹۶)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔