جب رسول اللہﷺ کو معرکہ ٔ موتہ کے سلسلے میں مشارف شام کے اندر رہنے والے عرب قبائل کے موقف کا علم ہوا کہ وہ مسلمانوں سے لڑنے کے لیے رومیوں کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے تو آپﷺ نے ایک ایسی حکمتِ بالغہ کی ضرورت محسوس کی جس کے ذریعے ایک طرف تو ان عرب قبائل اور رومیوں کے درمیان تفرقہ پڑجائے۔ اور دوسری طرف خود مسلمانوں سے ان کی دوستی ہوجائے تاکہ اس علاقے میں دوبارہ آپﷺ کے خلاف اتنی بڑی جمعیت فراہم نہ ہوسکے۔
اس مقصد کے لیے آپﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو منتخب فرمایا کیونکہ ان کی دادی قبیلہ بلی سے تعلق رکھتی تھیں۔ چنانچہ آپﷺ نے جنگ موتہ کے بعد ہی، یعنی جمادی الآخر ہ ۸ھ میں ان کی تالیف ِ قلب کے لیے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ فرمایا۔ کہا جاتا ہے کہ جاسوسوں نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ بنو قضاعہ نے اطرافِ مدینہ پر ہلہ ّ بولنے کے ارادہ سے ایک نفری فراہم کررکھی ہے، لہٰذا آپﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو ان کی جانب روانہ کیا۔ ممکن ہے دونوں سبب اکٹھا ہوگئے ہوں۔
بہرحال رسول اللہﷺ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کے لیے سفید جھنڈا باندھا۔ اور اس کے ساتھ کا لی جھنڈیاں بھی دیں۔ اور ان کی کمان میں بڑے بڑے مہاجرین وانصار کی تین سو نفری دے کر - انہیں - رخصت فرمایا۔ ان کے ساتھ تیس گھوڑے بھی تھے۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ بلی اور عذرہ اور بلقین کے جن لوگوں کے پاس سے گذریں ان سے مدد کے خواہاں ہوں۔ وہ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے تھے۔ جب دشمن کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی جمعیت بہت بڑی ہے۔ اس لیے حضرت عَمرو نے حضرت رافع بن مکیث جہنی کو کمک طلب کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو عَلَم دے کر ان کی سرکردگی میں دوسو فوجیوں کی کمک روانہ فرمائی۔ جس میں رؤساء مہاجرین - مثلا: ابو بکر وعمر - اور سردارانِ انصار بھی تھے۔ ابو عبیدہ کو حکم دیا گیا تھا کہ عمرو بن عاص سے جاملیں ، اور دونوں مل کر کام کریں، اختلاف نہ کریں۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابو عبیدہؓ نے امامت کرنی چاہی۔ لیکن حضرت عمر و نے کہا: آپ میرے پاس کمک کے طور پر آئے ہیں۔ امیر میں ہوں۔ ابو عبیدہ نے ان کی بات مان لی اور نماز حضرت عمرو ہی پڑھاتے رہے۔
کمک آجانے کے بعد یہ فوج مزید آگے بڑھ کرقضاعہ کے علاقہ میں داخل ہوئی اور اس علاقہ کو روندتی ہوئی اس کے دور درازحدود تک جا پہنچی۔ اخیر میں ایک لشکر سے مڈبھیڑ ہوئی، لیکن جب مسلمانوں نے اس پر حملہ کیا تو وہ ادھر اُدھر بھاگ کر بکھر گیا۔اس کے بعد عوف بن مالک اشجعیؓ کو ایلچی بنا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی بہ سلامت واپسی کی اطلاع دی اور غزوے کی تفصیل سنائی۔
ذات السلاسل (پہلی سین کو پیش اور زبر دونوں پڑھنا درست ہے ) یہ وادیٔ القریٰ سے آگے ایک خطہ ٔ زمین کا نام ہے۔ یہاں سے مدینہ کا فاصلہ دس دن ہے۔ ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ مسلمان قبیلہ ٔ جذام کی سر زمین میں واقع سلاسل نامی ایک چشمے پر اترے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام ذات السلاسل پڑ گیا۔( ابن ہشام ۲/۶۲۳تا ۶۲۶ ، زاد المعاد ۲/۱۵۷)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔