اس موقع پر یہود کی حمایت میں منافقین نے بھی خاصی تگ ودو کی۔ چنانچہ راس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے یہود ِ خیبر کو یہ پیغام بھیجا کہ اب محمدﷺ نے تمہار ا رُخ کیا ہے۔ لہٰذا چوکنا ہو جاؤ ،تیاری کرلو۔ اوردیکھو !ڈرنا نہیں۔ کیونکہ تمہاری تعداد اور تمہارا سازوسامان زیادہ ہے۔ اور محمدﷺ کے رفقاء بہت تھوڑے اور تہی دست ہیں۔ اور ان کے پاس ہتھیار بھی بس تھوڑے ہی سے ہیں۔
جب اہل خیبر کو اس کا علم ہو ا تو انہوں نے کنانہ بن ابی الحقیق اور ہوذہ بن قیس کو حصولِ مدد کے لیے بنو غطفان کے پاس روانہ کیا۔ کیونکہ وہ خیبر کے یہودیوں کے حلیف اور مسلمانوں کے خلاف ان کے مدد گار تھے۔ یہود نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر انہیں مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوگیا تو خیبر کی نصف پیداوار انہیں دی جائے گی۔
رسول اللہﷺ نے خیبر جاتے ہوئے۔ جبل عِصْر کو عبور کیا - عِصْر کے عین کو زیر ہے اور ص ساکن ہے۔ اور کہا جاتاہے کہ دونو ں پر زبر ہے - پھر وادیٔ صہباء سے گذرے۔ اس کے بعد ایک اور وادی میں پہنچے جس کا نام رجیع ہے۔ (مگر یہ وہ رجیع نہیں جہاں عضل وقارہ کی غداری سے بنو لحیان کے ہاتھو ں آٹھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت اور حضرت زید وخبیب رضی اللہ عنہما کی گرفتاری اور پھر مکہ میں شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا )
رجیع سے بنو غطفان کی آبادی صرف ایک دن اور ایک رات کی دوری پر واقع تھی اور بنو غطفان نے تیار ہوکر یہود کی اِمداد کے لیے خیبر کی راہ لے لی تھی۔ لیکن اثنائِ راہ میں انھیں اپنے پیچھے کچھ شور وشغب سنائی پڑا تو انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں نے ان کے بال بچوں اور مویشیوں پر حملہ کردیا ہے اس لیے وہ واپس پلٹ کر آگئے اور خیبر کو مسلمانوں کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔
اس کے بعدرسول اللہﷺ نے ان دونوںماہرین ِ راہ کو بلایا جو لشکر کو راستہ بتانے پر مامور تھے ان میں سے ایک کا نام حسیل تھا - ان دونو ں سے آپ نے ایسا مناسب ترین راستہ معلوم کرنا چاہا جسے اختیار کر کے خیبر میں شمال کی جانب سے یعنی مدینہ کے بجائے شام کی جانب سے داخل ہوسکیں۔ تاکہ اس حکمت ِ عملی کے ذریعے ایک طرف تو یہود کے شام بھاگنے کا راستہ بند کردیں۔ اور دوسری طرف بنو غطفان اور یہود کے درمیان حائل ہوکر ان کی طرف سے کسی مدد کی رسائی کے امکانات ختم کردیں۔
ایک راہنمانے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں آپ کو ایسے راستے سے لے چلوں گا۔ چنانچہ وہ آگے آگے چلا۔ ایک مقام پر پہنچ کر جہاں متعدد راستے پھوٹتے تھے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ان سب راستوں سے آپ منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ ہرایک کا نام بتائے۔ اس نے بتایا کہ ایک کام حَزن (سخت اور کھردرا) ہے۔ آپﷺ نے اس پر چلنا منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا : دوسرے کانام شاش (تفرق واضطراب والا) ہے۔ آپ نے اسے بھی منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا: تیسرے کانام حاطب (لکڑہارا ) ہے آپ نے اس پر بھی چلنے سے انکار کردیا۔ حُسَیْل نے کہا : اب ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : اس کا نام کیا ہے ؟ حُسیل نے کہا: مرحب۔ نبیﷺ نے اسی پر چلنا پسند فرمایا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔