Monday, 19 October 2015

دشمن کو شکستِ فاش


مٹی پھینکنے کے بعد چند ہی ساعت گذری تھی کہ دشمن کو فاش شکست ہوگئی۔ ثقیف کے تقریباً ستر آدمی قتل کیے گئے اور ان کے پا س جوکچھ مال، ہتھیار ، عورتیں اور بچے تھے مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
یہی وہ تغیر ہے جس کی طرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے اس قول میں ارشادفرمایا ہے :
''اور(اللہ نے ) حنین کے دن (تمہاری مدد کی ) جب تمہیں تمہاری کثرت نے غرور میں ڈال دیا تھا۔ پس وہ تمہارے کچھ کا م نہ آئی۔ اور زمین کشادگی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھر تم لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگے، پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنین پر اپنی سکینت نازل کی۔ اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نے نہیں دیکھا۔ اور کفر کرنے والوں کو سزادی اور یہی کافروں کا بدلہ ہے۔''
شکست کھانے کے بعد دشمن کے ایک گروہ نے طائف کا رخ کیا۔ ایک نخلہ کی طرف بھاگا۔ اور ایک نے اوطاس کی راہ لی۔ رسول اللہﷺ نے ابو عامر اشعریؓ کی سرکردگی میں تعاقب کرنے والوں کی ایک جماعت اوطاس کی طرف روانہ کی۔ فریقین میں تھوڑی سی جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد مشرکین بھاگ کھڑے ہوئے، البتہ اسی جھڑپ میں اس دستے کے کمانڈر ابو عامر اشعریؓ شہید ہوگئے۔
مسلمان شہسوار وں کی ایک دوسری جماعت نے نخلہ کی طرف پسپا ہونے والے مشرکین کا تعاقب کیا اور دُرید بن صمہ کو جاپکڑا۔ جسے ربیعہ بن رفیع نے قتل کردیا۔
شکست کھاکر مالک بن عوف میدان سے فرار ہوا اور اثنائے راہ میں ایک گھاٹی میں وہ اپنے ہم قوم سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ رکااور اس نے اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ تم ذرا توقف کرو تاکہ ہم میں جو کمزور ہیں وہ اس مقام سے گذر جائیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ بھی آملیں، یہ اتنی دیر وہاں ٹھہر گیا جتنی دیر کہ اس کی فوج کی شکست خوردہ جماعتیں جو اس کے پاس آگئی تھیں گھاٹی سے گذر گئیں(طبری)
شکست خوردہ مشرکین کے تیسرے اور سب سے بڑے گروہ کے تعاقب میں جس نے طائف کی راہ لی تھی۔ خود رسول اللہﷺ مال غنیمت جمع فرمانے کے بعد انکی طرف روانہ ہوئے۔مالِ غنیمت یہ تھا۔ قیدی چھ ہزار ، اونٹ چوبیس ہزار ، بکری چالیس ہزار سے زیادہ ، چاندی چار ہزار اوقِیہ (یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم جس کی مقدار چھ کوئنٹل سے چند ہی کلو کم ہوتی ہے ) رسول اللہﷺ نے ان سب کو جمع کرنے کا حکم دیا، پھر اسے جِعرانہ میں روک کر حضرت مسعود بن عمرو غفاریؓ کی نگرانی میں دے دیا۔ اور جب تک غزوہ طائف سے فارغ نہ ہوگئے اسے تقسیم نہ فرمایا۔
قیدیوں میں شیماء بنت حارث سعدیہ بھی تھیں۔ جو رسول اللہﷺ کی رضاعی بہن تھیں۔ جب انہیں رسول اللہﷺ کے پاس لایا گیا اور انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو انہیں رسول اللہﷺ نے ایک علامت کے ذریعہ پہچان لیا۔ پھر ان کی بڑی قدر وعزت کی۔ اپنی چادر بچھاکر بٹھا یا اور احسان فرماتے ہوئے انہیں ان کی قوم میں واپس کردیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔