اتنے میں ہوازن کے ان حضرات کا ایک وفد حاضر ہوا جو مسلمان ہو چکے تھے، یہ کل چودہ آدمی تھے جن میں حضور اکرم ﷺ کا رضاعی چچا ابو زرقان بھی تھا ، اس وفد کا سربراہ زُہیر بن صُرد تھا ، وفد کے لوگوں نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ ان کے مال اور قیدیوں کو واپس کردیں، یہ درخواست نہایت رخت انگیز لہجہ میں کی گئی تھی، ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے اسلام قبول کیا، بیعت کی اور حضور اکرم ﷺ سے گفتگو کی ، رئیس وفد زُہیر بن صُرد نے عرض کیا … یا رسول اﷲ ! آپﷺ نے جنہیں قید فرمایا ہے ان میں آپﷺ کی مائیں ، بہنیں ، پھوپھیاں اور خالائیں ہیں اور یہی قوم کی رسوائی کا سبب ہوتی ہیں، حضور اکرم ﷺ نے قبیلہ ہوازن میں ہی دودھ پیا تھا اور آپﷺ کی دایہ حضرت حلیمہؓ اسی خاندان کی بیٹی تھیں، وفد والوں نے اس تعلق کو واسطہ بناکر حضورﷺ سے درخواست کی اور کہا ! " اگر ہماری اسیر بیبیوں میں سے کسی نے حارث بن ابو شمر یا نعمان بن منزر کو اپنا دودھ پلایاہوتا اور وہ آپﷺ ہی کی طرح ہم پر غالب آجاتا پھر ہم اس سے اپنی عورتوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے تو ناممکن تھا وہ ہماری استدعا کو مسترد کرتا اور آپﷺ تو دنیا بھر کے مربیوں سے بہتر ہیں"
حضور اکرم ﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا! کہ میرے ساتھ جو لوگ ہیں ان کو تم دیکھ رہے ہو، مجھے سچی بات بہت پسند ہے، تم دو میں سے ایک چیز پسند کرلو، یا اسیر یا مال ، میں نے تمہارا بہت انتظار کیا ؛لیکن تم نہیں آئے ، رسول اﷲ ﷺ نے طائف سے واپس آکر ان کا دس روز سے زیادہ انتظارکیا ، جب ان کو معلوم ہوگیا کہ رسول اﷲ ﷺ صرف ایک چیز لوٹائیں گے تو انہوں نے عرض کیا کہ ہم اپنے اسیروں کو پسند کرتے ہیں، حضور ﷺ نے فرمایا! اچھا تو جب میں ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم لوگ اٹھ کر کہنا کہ ہم رسول اﷲ ﷺکو مومنین کی جانب سفارشی بناتے ہیں اور مومنین کو رسول اﷲ ﷺ کی جانب سفارشی بناتے ہیں کہ آپﷺ ہمارے قیدی واپس کردیں، بعد فراغت نماز ظہر آپﷺ نے بعد حمد و ثنا لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا! " اما بعد… آپ کے یہ بھائی کفر سے توبہ کرکے آگئے ہیں ، میرا خیال ہے کہ میں ان کے اسیر ان کے حوالے کردوں، جو کوئی اپنی رضامندی سے ایسا کرے بہتر ہے اور جو شخص اپنے حصہ کو نہ دینا چاہے تو ہم اس کو پہلی غنیمت سے اس کا معاوضہ دے دیں گے اور وہ اپنے حصہ کو بہ خوشی دیدے، یہ سن کر لوگوں نے کہا … یا رسول اﷲ! ہماری جانیں آپﷺ پر قربان ، یہ مال کیا چیز ہے، اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ ہم جان سکیں کہ آپ میں سے کون راضی ہے اور کون نہیں؟ لہذا آپ لوگ جاکر اپنے نمائندوں سے مشورہ کے بعد یہ معاملہ پیش کروائیں، چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور یوں آن کی آن میں چھ ہزار قیدی آزاد ہوگئے، صرف عینیہ بن حصن رہ گیا جس کے حصے میں ایک بڑھیا آئی تھی ، اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا لیکن آخر میں اس نے بھی واپس کردیا، حضور اکرم ﷺ نے قیدیوں کو آزاد ہی نہیں کیا بلکہ اپنی طرف سے ہر ایک کو "قبطیہ " مصری کپڑے کی پوشاک بھی عطا فرمائی،
ابن اسحاق سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے مالِ غنیمت سے فارغ ہوکر جعرانہ ہی سے عمرہ کا احرام باندھااور مکّہ تشریف لاکر عمرہ ادا کیا، بقیہ مالِ غنیمت کو مجنّہ میں جو مرالظہران کے قریب واقع ہے محفوظ کروادیا، عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے حضرت عتاب ؓ بن اسید کو مکّہ کا والی مقرر فرمایا اور ان کی معاش کے لئے روزانہ ایک درہم مقرر فرمایا(ابن ہشام) حضرت معاذ ؓ بن جبل کو اسلام اور قرآن کی تعلیم دینے کے لئے مکّہ میں رہنے کا حکم دیا اور خود مہاجرین و انصار کی معیت میں مدینہ واپس ہوئے، آپﷺ کی مدینہ کو واپسی ۲۴ذی قعدہ ۸ ہجری کو ہوئی،
( تاریخ ابن خلدون ۲/۴۸ ، فتح مکہ ، حنین اور طائف کے ان غزوات اور ان کے دوران پیش آنے والے واقعات کے لیے دیکھئے: زاد المعاد ۲/۱۰۶ تا ۲۰۱ ، ابن ہشام ۲/۳۸۹ تا ۵۰۱ صحیح بخاری ، مغازی ،غزوۃ الفتح واوطاس والطائف وغیرہ ۲/۶۱۲ تا۶۲۲ ، فتح الباری ۸/۳ تا ۵۸)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔