Monday 13 October 2014

جھوٹی روایات کی پہچان اور معیارردو قبول

  تاریخ اسلامی کی تدوین جدید کی ضرورت

موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ کے اختلافات، انتشار اور فرقوں میں تقسیم کو دیکھتے ہوئے ایک معتدل اور امت کا درد رکھنے والا موٴرخ ضرور تاریخِ اسلامی کی تدوین جدید کی آواز اٹھائے گا۔ ۔ تاریخ کی تدوینِ جدید کے لیے کیا جانے والے مطالعے کے لیے یا جھوٹی روایتوں کی پہچان، انکا معیار ردوقبول کے لیے درج ذیل نکات زیادہ مفید، موٴثر اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں:
1. جو روایت بھی درایت اور عقل کے خلاف ہو ، یا اصولِ شریعت کے مناقض ہو تو جان لیں کہ وہ روایت موضوع ہے اور اس کے راویوں کا کوئی اعتبار نہیں اسی طرح جو روایت حس اور مشاہدہ کے خلاف ہو ، یا قرآن کریم، سنتِ متواترہ اور اجماعِ قطعی کے مبائن ہو تو وہ روایت بھی قابلِ قبول نہیں ۔
2. نہایت اعتدال کے ساتھ ان تمام موٴرخین کی کتابوں سے ثقہ اور جھوٹے و کذّاب راویوں کی روایات میں تمیز کی جائےجنہوں نے اپنی کتابوں میں دونوں طرح کی روایات کو جگہ دی ہے، جیسا کہ خلیفہ بن خیاط، محمدبن سعد ، زبیر بن بکار ، موسی بن عقبہ، وھب بن منبہ ،ابن جریر طبری اور ابن اثیر وغیرہ۔
3. تاریخی روایات کی سند اور متن ہر دو اعتبار سے نقد و تمحیص و تحقیق کے مسلمہ قواعد کی روشنی میں جائزہ لے کر ان پر محتاط و محققانہ کلام کیا جائے۔
4. اس بات میں بھی تفریق ضروری ہے کہ موٴلف اور صاحبِ تاریخ خود تو ثقہ ہیں؛ لیکن اس نے نقل واقعات و روایات میں دروغ گو اور کذّاب راویوں پر اعتماد کیا ہے، جیسا کہ ابن جریر طبری کا حال ہے ، ایسی صورت میں اس موٴرخ کی صرف ثقہ راویوں والی روایات مقبول قرار پائیں گی، دروغ گو و کذّاب رواة کی روایات مردود سمجھی جائیں گی۔
5. اگر صاحبِ تاریخ خود کذّاب ودروغ گو ہو تو پھر اس کی کتاب میں موجود ثقہ لو گوں کی روایات بھی غیر معتبر قراردے دی جائیں گی۔
6. اصل ضابطہ تو کذاب راویوں کی روایات کے بارے میں عدمِ قبولیت کا ہے ؛البتہ اگر ان کی کوئی روایت ،قرآنِ کریم، سنتِ مبارکہ اور اجماعِ امت کے مخالف نہ ہو تو دیگر ثقہ راویوں کی روایت کی تائید میں قرائن ومرجحات کی موجودگی میں قبول کرنے کی گنجائش ہوگی۔
7. دینی امور ، صحابہٴ کرام ، ائمہ و سلفِ صالحین کے علاوہ دیگر دنیاوی معاملات میں اگر کسی ثقہ راوی کی روایت دستیاب نہ ہو تو بصورت مجبوری دروغ گو راویوں سے منقول روایات نقلِ واقعہ کی غرض سے ذکر کرنے کی گنجائش ہوگی؛مگر اس سے علمِ یقین حاصل نہ ہو گا۔
8. تاریخ اور تحقیق کے نام پر محض موٴرخین کی ذکر کردہ روایات سے اخذ کردہ نتائج بھی غیر مقبول شمار ہوں گے؛ البتہ حقیقی اور مسلمہ اصولوں کے تحت روایت قابل قبول قرار پائے تو اس سے ماخوذ نتائج درست قرار دیے جائیں گے۔
9. صحابہ وائمہ دین کی عیب جوئی سے متعلق روایت قابلِ اعتبار نہیں؛کیوں کہ روایات وضع کرنے والوں میں بعض لوگ وہ ہیں جنہوں نے حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہٴ دین کی برائیاں اور عیب بیان کرنے کے لیے ،یا اپنے دیگر مذموم اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے روایات وضع کی ہیں( اس کا ثبوت ہم گزشتہ تحاریر میں پیش کر چکے ) ، ان کا یہ عمل یا تعنت و عناد کی وجہ سے ہے یا تعصب و فساد کی وجہ سے ہے ، پس ان لوگوں کی روایات کا کوئی اعتبار نہیں؛ جب تک کہ ان کی کوئی سند معتمد نہ پائی جائے، یا سلفِ صالحین میں سے کسی نے اس پر اعتماد نہ کیا ہو۔
10. علامہ نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض اور علامہ مازری رحمھما اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ہمیں حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسنِ ظن رکھنے اور ہر بری خصلت کی ان سے نفی کا حکم دیا گیا ہے ؛ لہٰذا اگر ان کے بارے میں کسی روایت میں اعتراض پایا جائے اور اس کی صحیح تایل کی کوئی گنجائش نہ ہو تو اس صورت میں ہم اس روایت کے راویوں کی طرف جھوٹ کی نسبت کریں گے۔
علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمة اللہ نے لکھا ہے کہ اس بارے میں اہلِ سنت کا مذہب یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی مناسب تاویل کی جائے اور اگر مناسب تاویل ممکن نہ ہو تو اس روایت کو رد کر کے سکوت اختیار کرنا واجب ہے اور طعن کو بالیقین ترک کرنا ہوگا؛ اس لیے کہ حق سبحانہ و تعالی نے تمام صحابہٴ کرام سے مغفرت اور جنت کا وعدہ کیا ہے۔
11. تاریخ کی بڑی کتابوں کے اردو تراجم میں عام طور پر راوی کا تذکرہ نہیں کیا گیا اس لیے ان راویوں کی روایتوں کو مضمون سے بھی پہچانا جا سکتا ہے۔ ہر تاریخی روایت جس میں صحابہ کی طرف کرپشن، منافقت، زبان درازی، مکاری منسوب کی گئی ہو، وہ ذیادہ تر انہی سبائیوں کی گھڑی ہوئی ہیں ۔ اس لیے ایسی روایت کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جس سے صحابہ کرام کا کردار مجروح ہو رہا ہو کیونکہ یہ لوگ خود مجروح اور کرپٹ ہیں ۔ 
12. اس پورے عمل کے دوران اس بات کا استحضار رہے کہ ہماری تاریخ دروغ گو مکتبہٴ فکر کی اغواکاری کا شکار رہی ہے، لہٰذا معمولی سی غفلت بھی موجودہ اور آئندہ آنے والی امتِ مسلمہ کی نسلوں میں تشکیک ، تحریف ، تضلیل ، ائمہٴ دین و اسلاف سے بیزاری اور گروہی اختلافات کی آڑ میں ان تاریخی روایات کی بنیاد پرکُشت و خون کی ہولیاں کھیلے جانے کا سبب بن سکتی ہے.
ایک مشہور عالم نے روایات کے معیار ردو قبول کا عوام کے لیے ایک اور بالکل آسان طریقہ لکھا ہے۔
" تاریخ کو قبول کرنے کے لیے مجھے قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، اسکی جو روایتیں قرآن وحدیث کی تعلیم کے مطابق ہونگی میں انہیں بڑی محبت سے قبول کروں گا اور جو روایتیں، حکایتیں، رذالتیں، قباحتیں قرآن وحدیث سے ٹکرائیں گی میں انہیں نہ صرف رد کروں گا بلکہ اپنے پاؤں میں مسلوں گا ، کیونکہ وہ تاریخ نہیں جھوٹ ہے ، تہمت ہے ، بہتان اور دشنام ہے اور انسانیت سے گری ہوئی باتیں ہیں، تاریخ کے حوالے دے کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پر تبراہ کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی محفوظ نہیں ہے. کیا اس سے بہتر نہیں کہ تاریخ کی اندھی (سبائی) عینک سے اصحاب مصطفی کی عیب چینیوں کی بجائے قرآن وحدیث سے انکی فضیلتوں اور قدرومنزلت پر نگاہ کی جائے ۔ (اگر یہ لوگ قرآن وحدیث کی اصحاب کے بارے میں دی گئی شہادتوں کو پس پشت ڈال کر محض تاریخی روایتوں کے ذریعے ان پر نکتہ چینی جاری رکھتے ہیں تو ) ایسے نام نہاد 'تاریخ دان' ہمارے نزدیک 'تھوک دان' کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتے"۔
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔

2 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

خوب ہے

Unknown نے لکھا ہے کہ

ایک مشہور عالم نے روایات کے معیار ردو قبول کا عوام کے لیے ایک اور بالکل آسان طریقہ لکھا ہے۔

آپ اس عالم کا نام بتا دیتے تو زیادہ تشفی ہوتی۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔