Saturday, 11 October 2014

تاریخ طبری - دروغ گو اور ثقہ راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ

علامہ ابن جریر بن یزید طبری بہت بڑے اور بلند مرتبہ کے عالم تھے، خاص کر قرونِ ثلاثہ کی تاریخ کے حوالہ سے ان کا نام اور کتاب کسی تعارف کے محتاج نہیں ،قدیم و جدید تمام موٴرخین نے ان سے استفادہ کیا. ان ساری خصوصیات کے باوجود تاریخ طبری میں جگہ جگہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ایسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات مروی ہیں، جن کی کوئی معقول و مناسب توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ،جب کہ عدالتِ صحابہٴ کرام پرموجود قطعی نصوص قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے پیش نظر منصف مزاج اہل علم امام طبری اور خاص کر ان کی تاریخ میں مروی اس طرح کی روایات پر کلام کرنے پہ مجبور ہوئے ہیں، روایات پر کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ تاریخ طبری میں بڑے بڑے دروغ گو ، کذّاب اور متہم بالکذب راویوں کی روایات بھی جگہ جگہ موجود ہیں، 

تاریخ طبری کی روایات کا ایک جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹرخالد علال کبیر صاحب نے تاریخ طبری میں موجود ثقہ و غیر ثقہ راویوں کی روایات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے؛ انہوں نے تاریخِ طبری میں اس کے بارہ (۱۲) مرکزی رواة کی روایات کا جائزہ لیااور ان میں سے سات راوی کذّاب یا متہم بالکذب ہیں اور پانچ ثقہ ہیں۔

دروغ گواور متہم بالکذب راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ :
محمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات،
حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،
محمد بن عمر کی چار سو چالیس (۴۴۰)روایات ،
سیف بن عمر تمیمی کی سات سو (۷۰۰)روایات ،
ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات،
ہیثم بن عدی کی سولہ(۱۶) روایات،
محمد بن اسحاق بن سیار (یسار)(۲۵) کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ہیں،
ان سب کی روایات کا مجموعہ جن کو موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے وہ انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) ہے۔

ثقہ راویوں کی روایات کا اجمالی خاکہ :-
زبیر بن بکار کی آٹھ(۸)روایات ،
محمد بن سعد کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ،
موسی بن عقبہ کی سات(۷)روایات ،
خلیفہ بن خیاط کی ایک(۱) روایت ،
وھب بن منبہ کی چھیالیس (۴۶)روایات ہیں۔
تاریخ طبری کے ان پانچ ثقہ راویوں کی روایات کا مجموعہ دو سو نو(۲۰۹) ہے۔

گویا تاریخ طبری میں دو سو نو( ۲۰۹)ثقہ روایات کے مقابلہ میں ان سات دروغ گو اور متہم بالکذب راویوں کی انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) روایات ہیں، ان دونوں کے تناسب سے اندازہ لگاجاسکتا ہے کہ تاریخ طبری جیسی قدیم اور مستند سمجھی جانے والی کتاب کا جب یہ حال ہے تو تاریخ کی باقی کتابوں کا کیا حال ہوگا۔(
( تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:۴۵۔۴۷،دار البلاغ الجزائر)
اس تفصیل سے ساری تاریخ کی تغلیط بالکل  مقصد نہیں  اور نہ ھی اس کی ضرورت ھے. طبری میں ان راویوں کی  صرف وہ روایات جن میں طنز و تنقید صحابہ پر ہے اور مصنف کی بات کو ماننے سے صحابہ کرام پر اور انکے متعقل قرآن و حدیث کی گواہی پر حرف آتا ہے، ان روایات  اور انکے راویوں  کی شناخت کے لیے لیے ایک خاکہ بیان کیا گیا ہے۔ اس پر تحقیق اگلی تحریر میں پیش کی جائیگی کہ یہ روایات کس قدر تعصب پر مبنی اور جھوٹی ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔