Friday 10 October 2014

تاریخ - تعریف، فوائد اور ضرورت

تاریخ کا لغوی مفہوم:-
          لغت میں ”تاریخ“ وقت سے آگاہ کرنے(کسی چیز کے واقع ہونے کاوقت بتانے) کو کہتے ہیں۔(۱)
           أرَّخْتُ الکتابَ: میں نے لکھنے کا وقت ظاہر کیا۔ علامہ اسماعیل بن حماد الجوہری (المتوفی ۳۹۳ھ) فرماتے ہیں کہ ”تاریخ اور توریخ“ دونو ں کے معنی وقت سے آگاہ کرنا ہیں؛ چناں چہ اس کے لیے”أرَّخْتُ“ بھی کہا جاتا ہے اور” وَرَّخْتُ“ بھی۔(2)

تاریخ کا اصطلاحی مفہوم:-
          تاریخ کی اصطلاحی تعریف میں بڑی بڑی موشگافیاں کی گئی ہیں،یہاں دو کا تذکرہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
         1۔اصطلاح میں تاریخ اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں ، فاتحوں اورمشاہیر کے احوال، گزرے ہوئے زمانہ کے بڑے اور عظیم الشان واقعات و حوادث، زمانہٴ گزشتہ کی معاشرت ، تمدن اور اخلاق وغیرہ سے واقفیت حاصل کی جاسکے۔
 2۔بعض حضرات نے اس سے وہ سارے امور بھی ملحق کردیے  جو بڑے واقعات و حوادث سے متعلق ہوں، جنگوں ، امورِ سلطنت ،تہذیب و تمدن ، حکومتوں کے قیام ، عروج و زوال ، رفاہِ عامہ کے کاموں کی حکایت (وغیرہ) کو بھی تاریخ کہا گیا ہے۔
          خلاصہ اور نتیجہ ان تمام اقوال کا یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جو حالات و واقعات بقیدِ وقت لکھے جاتے ہیں ، ان کو تاریخ کہتے ہیں۔(3)

:تاریخ کی ضرورت وفوائد:-
          تاریخ سے گزشتہ اقوام کے عروج و زوال ، تعمیر و تخریب کے احوال معلوم ہوتے ہیں، جس سے آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کا سامان میسر آتا ہے، حوصلہ بلند ہوتا ہے، دانائی و بصیرت حاصل ہوتی ہے اور دل و دماغ میں تازگی و نشو نما کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، غرض تاریخ اس کائنات کا پس منظر بھی ہے اور پیش منظر بھی، اسی پر بس نہیں؛ بلکہ اس سے آئندہ کے لیے لائحہٴ عمل طے کرنے میں بهی خوب مدد ملتی ہے۔(۵)

حواشی و حوالہ جات
(۱)         القاموس المحیط للفیروز آبادی،فصل الھمزة:۱/۳۱۷، المحکم والمحیط الأعظم لابن سیدة ، فصل الخاء واللام والھمزہ: ۵/۲۳۸،دار الکتب العلمیة، المعجم الوسیط باب الھمزة:۱/۱۳،دار النشر، تاج العروس،أرخ: ۷/۲۲۵،دار الھدایة، لسان العرب،أرخ:۳/۴،دار صادر
(2)        الصحاح : ۱/۴۴۰ ، مختار الصحاح ، باب الألف :۱/۱۳،مکتبة لبنان ناشرون
(3)               تفصیل کے لیے دیکھئے : الشماریخ في علم التاریخ للسیوطي: ۱/۱۰۔۱۴،الدار السلفیة کویت ، تاریخ ابن خلدون : ۱/۳، ۹،۳۵، تاریخ الإسلام للذھبي: ۱/۱۲،دار الکتاب العربي، تاریخ الطبري: ۱/۱۲، دار الکتب العلمیة
(4)        الکامل في التاریخ : ۱/۹،دار الکتب العلمیة ،الشماریخ في علم التاریخ للسیوطي: ۱/۱۴

2 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

بھائ اگر کوئ تاریخ کا انکار کر دے تو اسے تاریخ کا قائل کیسے کیا جائے گا جیسے کوئ کہے کہ میں تاریخ کو مانتا ہی نہیں کہ سو دو سو سال پہلے کیا ہوا تھا

Nabeel نے لکھا ہے کہ

Reply to comment from Anonymous:

If someone disapprove history or doesn't consider it something valid, it is an irrational approach. Such a person should also disapprove all fields of knowledge and sciences as they were discovered centuries and decades ago too. This will include all medical treatements, all scientific discoveries and what not. He should say "Why should I trust some medical experiment that was done 2 hundred years ago". If he can't say that, he should then ask himself "why". The logical answer would be because he believe the information is coming from trust-worthy sources. And we all agree on this point. Only the information from trust worthy sources can be considered trust worthy.

Second point is that human mind develops through experiences. In someone's life time, one cannot base all the learning on experience a person sees in his life. Rather we develop it by studying "history" in almost all sciences. We study politics, theology, economics, psychology, science and all other fields standing on the basis on history. It can be tested by anyone; try removing history from these subjects and a person would be left ONLY with doubt and confusion...

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔