Saturday 11 October 2014

تاریخ اسلام میں صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پر ایک تحقیق - حصہ اول

گزشتہ  تحاریر میں ہم نے  محققین  کی تحقیق اور اسم و رجال کے حوالہ سے اہم تاریخی کتاب طبری میں موجود دروغ گو اور کذاب راویوں کے بارے میں تحقیق پیش کی . ان کے  ثبوت  میں ہم مشہور اور متنازعہ تاریخی واقعہ جنگ جمل اور  جنگ صفین کے واقعات بیان کرنے والی راوی  ابو مخنف لوط کی  تین مشہور روایات پر تجزیہ   پیش کررہے ہیں، جس سے ناصرف ان واقعات کی حقیقت  سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ  ان راویوں کی مکاری اور طریقہ واردات بھی کھل کر سامنے آجائے گا۔ تحریر نا چاہتے ہوئے بھی  طویل ہوگئی، قارئین کے مزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے چار قسطوں میں پیش کی جائے گی
تحریر کے اہم موضوعات:-
جنگ جمل اور صفین کاپس منظر
جنگ صفین کے بعد  تحکیم کا واقعہ
تحکیم کے لیے مقرر کیے گئے ثالثوں کا فیصلہ
فیصلے کے  وضا حت طلب امور
فیصلہ پر ایک نظر
ثالثوں  کی شخصیت پر کیے گئے اعتراضات کا جائزہ
جنگ جمل اور صفین کاپس منظر :۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے کے مسئلے پر امت دو حصوں میں بٹ گئی تھی ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ صحابہ کی جماعت کا یہ موقف تھا کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اس وقت کر یں گے جب تک عثمان رضی اللہ عنہ کے خون ناحق کا قصاص لیا جائے گا ، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ تھا کہ یہ لوگ بیعت کرلیں پھر بعد میں جب حالات سازگار ہوجائیں گے تو قصاص لے لیا جائے گا۔معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھیوں کا موقف یہ تھا کہ چونکہ قاتلین عثمان ہی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت قبول کرنے پر مجبور کرکے سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ملک کے انتظام و تدبیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تمام فیصلوں میں وہ پوری طرح دخیل ہیں اسی لئے حضرت علی رضی اللہ نہ خون عثمان کا قصاص لے پارہے ہیں اور نہ ہی اس صورتحال کے برقرار رہتے ہوئے وہ قصاص لے سکیں گے ، لہذا فتنہ کے سدباب کی بس یہی صورت ہے کہ یا تو وہ خود قصاص لیکر ان قاتل سبائیوں سے اپنی گلو خلاصی کریں یا پھر ان قاتلوں کو ہمارے حوالہ کردیں تاکہ ہم انکو کیفرکردار تک پہنچا کر پوری ملت اسلامیہ کے زخمی دلوں کو سکون پہنچا سکیں، یہ مطالبات ان بلوائیوں/ سبائیوں/قاتلان عثمان کے لیے انتہائی تباہ کن تھے اس لیے ان کی ریشہ دوانیوں اور کوششوں سے ان دونوں گروہوں میں اختلاف بڑھتے گئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں دو جنگیں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوگئیں ۔ صفین میں جب جنگ زوروں پر تھی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نےدونوں طرف ہونے والے مسلمانوں کے اس جانی نقصان سے بچنے کے لیے حضرت علی کو قرآن پر مصالحت کی دعوت دی جس کو انہوں نے فورا منظور کرلیا اور دونوں طرف جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔

اس جگہ ہم نے تاریخ کی ان مکذوبہ سبائی تفصیلات کو بیان کرنے سے قصدا گریز کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے اپنی شکست کو قریب دیکھ کر معاویہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے قرآن کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے نیزوں پر بلند کردیا تاکہ علی کی فوج منتشر ہوجائے اورہم شکست سے بچ جائیں اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ اس جنگ بندی پر راضی نہیں تھے ، باربار اپنی تقریروں (جن میں معاویہ اور مخالف صحابہ کو منافق اور دھوکے باز کہنے اور گالیاں دینے کا ذکر ہے ) کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتے اور ابھارتےرہے ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی اپنی جماعت کے سامنے ایک نہ چلی اور آخر بادل نخواستہ تحکیم پر رضا مند ہوئے۔ ان روایات میں راویوں کا جھوٹ اور بہتان کئی باتوں سے ظاہر ہے، 
یہ روایات اور آگے جن روایات کا ذکر آئے گا یہ تاریخ طبری اردو ایڈیشن دارالاشاعت کراچی جلد تین صفحہ 620تا650 پر دیکهی جا سکتی ہیں. . تفصیل ان روایات پر تبصرہ میں بهی آگے آئے گی۔

جنگ صفین کے بعد تحکیم کا واقعہ:-
جنگ بندی کے بعد تحکیم ہوئی یعنی کتاب اللہ کے حکم کےمطابق حضرت علی رضی اللہ کی طرف سے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ثالث مقرر ہوئے کہ یہ دونوں کتاب وسنت کے مطابق نزاعی معاملہ کا جو فیصلہ کریں گے وہ فریقین کے لئے قابل قبول ہوگا۔اس فیصلہ کی شرائط کے متعلق جو ابتدائی دستاویز تیار ہوئیں وہ تاریخ کی سب بڑی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ہم طوالت سے بچنے کے لیے اس کے بنیادی نکات کو بیان کرتے ہیں۔
1. حضرت علی رضی اللہ اور انکے تمام ساتھیوں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے تمام ساتھیوں کو مساویہ طور پر اہل ایمان تسلیم کیا گیا۔
2. دونوں ثالثوں کی عدالت اور انصاف پر فریقین نے اپنے کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ ایسا فیصلہ کریں جس سے یہ عارضی جنگ بندی مستقل اور پائیدار امن کی صورت اختیار کرے اور دوبارہ اختلاف و جنگ کی صورت پیدا نہ ہونے پائے۔
3. ثالثوں پر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ اپنا فیصلہ تحریری طور پر پیش کریں۔
4. شہادت و مشاورت اور دوسرے تمام ضروری مراحل سے گذرنے کے بعد ثالثوں کے فیصلہ سنانے کے لیے رمضان کا مہینہ مقرر کیا گیا۔

ثالثوں کا فیصلہ :۔
یہ معاہدہ چونکہ خیر القرون میں نبی کامل کے تربیت یافتہ جید اصحاب کی ان دو جماعتوں کے درمیان ہوا تھا جن سے پاکیزہ اور لائق تقلید انسانی گروہ کا روئے زمین پر تصور نہیں کیا جاسکتا ، اس لیے اس تحکیم کے لیے جس طرح کی بہترین شرائط رکھی گئی تھیں فیصلہ بھی انہی کے مطابق آنا یقینی تھا ۔ جبکہ تاریخی روایتوں میں یہاں بات کو بڑے طریقے سے ایک الگ رخ پر موڑ کر فتنہ کا دروازہ کھول دیا گیا،۔تاریخ اس فیصلہ کی تفصیلات میں ان سبائی راویوں کی روایتوں کی بنیاد پر کچھ اور ہی کہانیاں سناتی ہے ۔ معاہدہ کی شرائط پرغور کیجیے ان میں کن باتون کو اہمیت دی گئی اور تاریخ فیصلہ کیا بتاتی ہے ۔ جنگیں اور پھرمعاہدہ قاتلان عثمان سے قصاص کےمتعلق ہوا اور تاریخ میں یہ سبائی روای انتہائی مکاری سے فیصلہ میں بالکل الٹ خلافت کا تنازعہ بتاتے ہیں اور پھراپنے غیظ القلب کی تسکین کے لیے اصحاب کا ایک دوسرے کو گالیاں دینا، برا بھلا کہنا بتلاتے ہیں ۔ تاریخ طبری، ان اثیر اور ابن خلدون وغیرہ نے فیصلہ کی جو تفصیلات دیں انکا خلاصہ یہ ہے۔
"دونوں ثالث مجمع میں آئےجہاں دونوں طرف چار چار سو اصحاب کرام رضوان اللہ اور ان کے علاوہ کچھ غیر جانبدار جید صحابہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ موجود تھے۔حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم دونوں اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ ہم علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو خلافت سے معزول کرلیں، پھر لوگ باہمی مشورہ سے جس کو پسند کریں خلیفہ کی حیثیت سے منتخب کرلیں، لہذا میں علی اور معاویہ دونوں کو معزول کرکے معاملہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں دیتا ہوں کہ اب آپ جسے چاہیں اپنا نیا امیر بنالیں، اس کے بعد حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جو کچھ میرے ساتھی نے ابھی کہا اسے آپ لوگوں نے سن لیا کہ انہوں نے اپنے آدمی علی رضی اللہ کو معزول کردیا میں بھی انکی طرح علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرتا ہوں اور اپنے آدمی معاویہ رضی اللہ کو خلاف پر قائم رکھتا ہوں۔ یہ سنکر حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو سے کہا تم نے یہ کیا کیا ؟ خدا تمہیں توفیق نہ دے ، تم نے تو ہمیں دھوکہ دیا ہے اور گنہگار بنے ، تمہاری مثال تو اس کتے کی ہے جس پر بوجھ لادو تو بھی ہانپے ، اس کے جواب میں حضرت عمرو نے کہا کہ تمہاری مثال اس گدھے کی ہے جو بوجھ ڈھوئے پھرتا ہے۔ دوسرے صحابہ نے حضرت ابوموسی کو طعنے دینے شروع کیے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ نے کہا کہ ابو موسی تمہارے حال پر افسوس ہے کہ تم عمرو کی چالوں کے مقابلے میں بہت کمزور نکلے، حضرت عبد الرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابو موسی اگر اس سے پہلے مر گئے ہوتے تو ان کے حق میں ذیادہ اچھا ہوتا "۔ پھر حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ مجمع سے اٹھ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انکو خلافت کی مبارکباد پیش کی ، دوسری طرف حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ اتنے شرمندہ تھے کہ وہ پھر حضرت علی رضی کو منہ بھی نہ دکھا سکے اور سیدھے مکہ چلے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ پہنچ کر اپنی تقریروں میں مخالف صحابہ کو برا بھلا کہا اور دوبارہ جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ لیکن ان کے لوگوں نے انکا ساتھ نہ دیااور خوارج کے فتنے نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے مزید ایک درد سر پیدا کردیا تھا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔