Saturday, 11 October 2014

تاریخ اسلام میں صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پر ایک تحقیق - حصہ سوئم

ثالثوں کی شخصیت
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ :۔
واقعہ تحکیم کی بنیاد پر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ پر دو بہتان لگائے جاتے ہیں کہ اول یہ کہ آپ نہایت مغفل، بیوقوف اور سفینہ قسم کے آدمی تھے ، اس لیے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ آپ کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوگئے ، دوئم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ پر پہلے سے ہی اعتماد نہیں تھا وہ کسی اور کو ثالث بنانا چاہتے تھے۔
یہ دونوں باتیں حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کے زندگی کے ریکارڈ کے خلاف ہیں حقیقت میں آپ وہ شخص تھے جنکی زیرکی ودانائی، تدبر وسیاست، فہم فراست اور فقہ و دیانت داری پر نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ بعد کے سارے خلفا ئے راشدین نے بھرپور اعتماد کرتے ہوئے ان کو اہم علمی ، سیاسی عہدوں کی ذمہ داری دی تھی ، (انکی تفصیلات تاریخ اور انکی زندگی پر لکھی گئی کسی کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے)۔ پھر حضرت ابو موسی سے منسوب کوئی ایسا جھوٹا واقعہ بھی کسی تاریخی کتاب تک میں تحکیم سے پہلے کا نہیں ملتا جس سے انکی سفاہت پر کچھ روشنی پڑتی ہو بلکہ اس کے برعکس ان کے عبقری صفت ہونے کے ایسے حالات ملتے ہیں جن سے ان کے صحابہ میں امتیازی مقام کا پتا چلتا ہے۔ پھر اچانک ان کی بے عقلی اور سفاہت کی باتیں اور ان پر یہ بے اعتمادی کیسے سامنے آگئی ۔ ؟

سچائی یہ ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ثالثوں کی دستاویز وں میں درج شرائط کی پوری پابندی کرتے ہوئے کتاب وسنت کی ہدایت میں جنگ صفین کے اسباب کا پتا لگایا اور فریقین کے موقف کی خوبیوں و خامیوں کا جائزہ لیا اور پوری غیر جانبداری کے ساتھ غوروخوض کرنے ، نیز استصواب رائے کےبعد انہوں نے جو فیصلہ دیا وہ فیصلہ نہ صرف فریقین بلکہ بلا اختلاف تمام مسلمانوں نے تسلیم کیا ، فیصلہ کی تحریر کا متن تو سبائیوں کی ہاتھ کی صفائی کی وجہ سے تاریخ میں نہ آسکا ، لیکن فیصلہ کی برکات کو سبائی چھپانے پر قدرت نہیں رکھتے تھے . فیصلہ کے بعد نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی جنگ ہوئی اور نہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے خون عثمان کے قصاص کا مطالبہ ہوا اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے انہیں شام کی گورنری سے معزولی کے لیے اصرار ہوا ۔ اس فتنہ کا پوری طرح سدباب ہوگیا جس کے لیے ثالثوں کا تقرر ہوا تھا۔

اس شاندار کامیابی کے ہوتے بھلا حضرت ابو موسی کیوں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منہ چھپا کر مکہ جاتے ؟ بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ حضرت ابو موسی کی یہ بے لوث و مخلصانہ خدمت اور انکی شاندار کامیابی انکی نسلوں تک کیلئے سرمایہ افتخار بنی رہی ، چنانچہ مشہور شاعر ذی الرمہ نے ان کے پوتے حضرت بلال بن برید بن ابی موسی رضی اللہ عنہ کی شان میں قصیدہ کہتے ہوئے اس شاندارکارنامہ کا ذکر اس طرح کیا ہے۔

ابوک تلافی الدین و الناس بعد ما
تشاءوا و بیت الدین منقطع الکسر
ترجمہ ؛ آپ کے باپ تو وہ تھے جنہوں نے دین اور اہل دین کی اس وقت شیرازہ بندی کی جب دین کا قصر گرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
فشداصارالدین ایام اذرح
وردحروباقد لقحن الی عقرٖ
انہوں نے اذرح والے دنوں میں دین کے خیمہ کی طنابیں کس دیں اور ان جنگوں کو روک دیا جو اسلام کی نسل منقطع کرنے کا سبب بن رہی تھیں۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی ، اسلام کے مایہ ناز جرنیل فاتح مصر اور 'دہاۃ عرب' میں شمار ہونے والے حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ بھی سبائیوں کی دو طرفہ سازشوں سے تاریخ کی مظلوم شخصیتوں میں شامل ہوگئے۔ جب خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کی گورنری سے معزول کرکے انکی جگہ حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تو انکے اس فیصلہ پر عمرو رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کولے کر خلیفہ ثالث پر اقرباپروری کا الزام لگانے کے لیے سبائیوں نے ان ( حضرت عمرو) کے خوب خوب فضائل بیان کیے، جب یہی عمرو مسلمانوں کے اختلاف سے پریشان ہو کر افہام تفہیم اور اصلاح کے لیے حضر ت معاویہ کے پاس شام گئے اور انکے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت کے ذریعے سبائی قاتلان عثمان سے قصاص لینے کے لیے راہیں ہموار کرنے کرنے لگئے تو یہی سبائی ان کے دشمن بن گئے ان پر ناصرف میدان جنگ میں قرآن نیزوں پر بلند کرانے ، ثالثی کے فیصلے میں عیاری دکھلانے وغیرہ جیسے بڑے الزام لگا دیے بلکہ ان کواپنی روایتوں میں دوسروں کی زبان سے خوب گالیاں بھی دلوائیں۔ غرضیکہ وہی شخصیت جسے عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہمہ صفات موصوف قرار دیا گیا اسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلاف میں ہمہ عیوب قرار دیدیا گیا۔ یہ ہے سبائیت کا دوہرا معیار جسے صحیح تاریخی اسلام قرار دیکر جلیل القدر اصحاب رسول کی کردار کشی کی جارہی ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پر ثالثی کے فیصلہ میں عیاری دکھلانے کے الزام کی حقیقت اوپر تحکیم اور حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں بیان کی جاچکی ہے کہ اس فیصلہ کی دی گئی تفصیلات سب گھڑی ہوئی ہیں۔
آپ پر سب سے بڑے اعتراض کا سبب ابو مخنف کی وہ روایت ہو جس میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے مشورہ کے مطابق ایک جنگی چال کے طور پر جنگ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکر سے قرآن کو نیزوں پر بلند کروایا تاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں پھوٹ پڑ جائے ۔ ابو مخنف کی اس روایت کو لے کر رافضیوں اور نام نہاد سنیوں نے عمرو رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنے دل کی کالک سےکئی کئی صفحے کالے کیے ہیں۔حالانکہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ ابن کثیر میں اس روایت کے ساتھ اسی واقعہ کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بھی ایک باسند روایت نقل کی ہے، ان ناقدین اصحاب کواس سبائی کی روایت تو نظر آگئی اسی صفحہ پر یہ روایت نظر نہیں آئی جسے ایک صحابی روایت کررہے ہیں۔
" حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم صفین میں تھے تو جب اہل شام کے ساتھ جنگ خوب زور پکڑ گئی ، شامی ایک ٹیلے پر چڑھ گئے ، پھر حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کی طرف قرآن بھیج کر ان کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دیں، وہ ہرگز انکار نہ کریں گے، تب قرآن لیکر ایک آدمی معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے آیا پھر اس نے کہا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان یہ اللہ کی کتاب فیصلہ کرنے والی ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں میں تو اس کا ذیادہ حقدار ہوں ، ٹھیک ہے ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کتاب اللہ ہے جو فیصلہ کرے "۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جنگ صفین میں شرکت کرنے والے صحابی حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ عمر و بن العاص رضی اللہ کے مشورے سے نہ تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرکے بے حرمتی کی گئی ، نہ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تفرقہ پھیلانے کے لیے اور شکست سے بچنے کے لیے یہ ایک جنگی چال تھی ۔ حضرت عمر و رضی اللہ عنہ کو اس بات کا احساس تھا کہ سبائیوں اور قاتلان عثمان نے اپنی جان بچانے کے لیے یہ جنگ ایک چال کے طور پر مسلمانوں کے درمیان شروع کروا دی ہے جس سے دونوں طرف مسلمان شہید ہورہے ہیں ، انہوں نے مسلمانوں کو اس بڑے جانی نقصان سے بچانے کے لیے یہ مخلصانہ کوشش کی اور ایک آدمی کو قرآن دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر ان کو یہ پیش کش کی ہم اس فتنہ میں قرآن کو اپنا حکم بنا لیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کرلیں، جسے علی رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر منظور کرلیا کہ میں تو قرآن کے فیصلہ کی طرف دعوت دینے اور اس پر عمل کرنے کا ذیادہ حقدار ہوں ، چنانچہ بعد میں اسی مشورہ کے مطابق واقعہ تحکیم ہوا اور اللہ نے مسلمانوں کو حضرت عمرہ بن العاص رضی اللہ عنہ کے ذریعے ایک بڑے جانی نقصان اور فتنہ سے بچا لیا۔
غور کریں کہ اس واضح اور ایک صحابی کی مستند روایت کی تاریخ ابن کثیر میں موجودگی کے باوجود کس طرح ابو مخنف سبائی کی اس داستان کا انتخاب کرکے گرما گرم سرخیوں کے ساتھ اسلامی تاریخی کتابوں میں پیش کیا گیا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔