Saturday, 11 October 2014

تاریخ اسلام میں صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پر ایک تحقیق - حصہ دوئم

روایات میں فیصلے کے متعلق پیش کی گئی تفصیلات کے وضا حت طلب امور :۔

1. فیصلہ کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ دونوں خلیفہ تھے، پھر حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے دونوں کو معزول کردیا اور عمر و رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو برقرار رکھا،حالانکہ یہ کسی گری پڑی تاریخی روایت سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ سے پہلے یا بعد میں اپنی خلافت کا اعلان کرکے اسکے لیے کسی ایک شخص سے بھی بیعت لی ہو ، اس کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بیعت ہوچکی تھی اور انہیں امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا تھا، صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھ اصحابہ نے فی الحال بیعت نہیں کی تھی ، وہ بھی اس لیے نہیں کہ وہ خود خلافت کے مدعی تھے بلکہ اس لیے کہ انکا مطالبہ تھا کہ پہلے قاتلان عثمان غنی سے قصاص لے لیا جائے پھر ہم بیعت کریں گے، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت پر قائم رکھنے اور علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے کی داستانیں کس بنیاد پر ؟
2. تحکیم کی دستاویز میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ ثالثوں کا فیصلہ تحریری ہوگا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ثالثوں نے محض تقریریں کیں ،اگر فیصلہ تحریری شکل میں نہیں تھا تو فریقین کی طرف سے شریک مجلس چار چار سو اصحاب اور ان کے علاوہ دوسرے غیر جانبدار بزرگ حضرات میں سے کسی نے تحریری فیصلہ کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ روایت دونوں کا مناظرہ دکھاتی ہے جبکہ یہاں تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا جانا تھا۔
3. اس روایت کے مطابق حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کی (معاذ اللہ) ناسمجھی ، بیوقوفی اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کی چالاکی کے باوجود دونوں کا کوئی متفقہ فیصلہ سامنے نہیں آیا ، نا مجمع نے دونوں کی تقریروں کے بعد متفقہ طور پر کسی کو منتخب کیا ۔ پھر وہ کون سا فیصلہ ہے جس پر حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ کو خلافت کی مبارکباد دی اور حضرت علی رضی اللہ نے اس پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اسے رد کیا ؟
4. اس نام نہاد فیصلہ کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ نے اپنی خلافت کی عام بیعت کیوں نہیں لی ؟ کیا انہوں نے بھی فیصلہ کو رد کردیا تھا ؟۔
5. راوی کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے فیصلہ کی علی الاعلان مخالفت اور دونوں ثالثوں کو مجرم گردانے کے بعد شام پر دوبارہ چڑھائی کرنے کی تیاریاں شروع ہوئیں لیکن خارجیوں کے فتنے نے اپنی طرف متوجہ کردیا۔پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس کمزوری سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فاعدہ اٹھا کر کوفہ پر چڑھائی کیوں نہ کی، اگر وہ خلافت چاہتے تھے تو یہ تو علی رضی اللہ عنہ کو راستے سے ہٹانے کا بہترین موقع تھا، اس ناکام فیصلہ کے بعد جنگ بندی مستقل کیسے ہوگئی، دوبارہ دونوں میں اختلاف کیوں نہ سامنے آیا ؟
یہ چند امور وضاحت طلب ہیں جو اس وقت تک وضاحت طلب ہی رہیں گے جب تک ان روایتوں کے راوی ابو مخنف لوط بن یحیی کی ان دروغ بافیوں کو صحیح تسلیم کیا جاتا رہے گا ۔

فیصلہ پر ایک نظر :۔
ان وضاحت طلب امور کے علاوہ فیصلہ سے پہلے اور فیصلہ کے بعد کے حالات و واقعات کو بنیاد بنا کر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس واقعہ کے متعلق تاریخی کتابوں میں مذکور ثالثوں کے فیصلے کی یہ تمام تفصیلات قطعا غلط ، گھڑی ہوئی اور محض اصحاب سے بدظن کرنے کی ایک سبائی سازش ہیں۔اصل فیصلہ مجموعی طور پر انتہائی کامیاب اور فریقین کے لیے قابل قبول اور عام مسلمانوں کے بہترین مفاد میں تھا کیونکہ :
1. دونوں ثالث ناصرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ بعد کے بھی سارے خلفائے راشدین اور صحابہ کے قابل اعتماد لوگ تھے اور ان کی فہم فراست، تدبر و سیاست اور فقہ و دیانت کو دیکھتے ہوئے ان کو ہر دور میں بڑی بڑی ذمہ داریاں اور عہدے عطا کیے گئے تھے ۔یہ بات ناممکن تھی کہ وہ صرف اس ایک مسئلہ میں فتنہ کا دروازہ کھولنے والا انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ کرتے ۔
2. اگر ثالثوں نے اپنی ذمہ داریوں کو قطعا فراموش کرکے اور خدانخواستہ دین و دیانت کو بالائے طاق رکھ کر یہ غلط فیصلہ دیا ہوتا تو مجلس میں موجود آٹھ سو سے زائد چیدہ و نمائندہ اصحاب کرام رضوان اللہ خاموش تماشائی نہ بنے رہتے۔ ایسا تو آج کے گئے گذرے دور میں بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ عہد صحابہ رضی اللہ میں جہاں منبر پر کھڑے خلیفہ کو دو چادریں پہننے پر پوچھ لیا جاتا تھا کہ سب کو مال غنیمت سے ایک چادر ملی اس نے دو کہاں سے لائیں۔
3. ثالثوں کے تقرر کا مقصد یہی تھا کہ نزاعی مسئلہ ' جنگ کے بجائے امن کے ماحول میں طے ہوجائے اور امت خون خرابہ سے محفوظ ہوجائے، یہ بات واضح ہے کہ ثالثوں کے فیصلہ کے بعد رفتہ رفتہ کشیدگی کم ہوتی گئی اور پھر دوبارہ جنگ کی نوبت نہیں آئی، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ثالثوں کے اصل فیصلے (جس کو تاریخ سے غائب کردیا گیا ) سے فریقین مطمئن ہوگئے تھے۔.
4. مزید ابو مخنف لوط مردود کی ان وضعی داستانوں پر یقین کرنے سے صحابہ کرام جیسی مقدس جماعت کی جو گھناؤنی تصویر ابھرتی ہے وہ تو اپنی جگہ اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (نعوذ باللہ) وہ بد قسمت انسان تھے جن کا نہ کوئی سچا ہمدرد اور خیرخواہ تھا اور نہ انکی بات کو کوئی تسلیم کرتا تھا اور خود آپ اس قدر کمزور قوت فیصلہ کے مالک تھے کہ ہر دفعہ آپ کو دوسروں کی رائے تسلیم کرنی پڑتی تھی۔آپ ابو موسی کے بجائے مالک بن اشتر کو ثالث بنانا چاہتے تھے لیکن آپکی مرضی نہ چلی ، آپ قرآن کو نیزوں پر اٹھانے کے بعد بھی جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے، آپ نے اس کے لیے جوش آور تقریریں کیں اور دین کا واسطہ دیکر بھی جنگ کا حکم دیا اس کے علاوہ تحکیم کے فیصلہ کے بعد عراق جاکر بھی دوبارہ شام پر چڑھائی کرنے کے لیے اپنے حواریوں کو حکم دیا لیکن آپ ایسے کمزور اور مجبور خلیفہ تھے کہ آپ کے واسطے دینے پر بھی کسی نے آپکی بات نہ ما نی۔
نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات الباطلہ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔