علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر کی رائے :-
علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمھما اللہ نے طبری کی توثیق کرنے کے ساتھ ساتھ دبے لفظوں میں ان کے تشیع کی طرف میلان کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:” ثِقَةٌ صَادِقٌ فِیْہ تَشَیُّعٌ یَسِیْرٌ وَ مُوَالَاةٌ لَاتَضُرُّ“․(1 )
شاید ان دونوں حضرات کے کلام کامقصد یہ تھا کہ چوں کہ علامہ طبری نے اپنی تاریخ میں ایسی روایات بغیر نقد و کلام کے نقل کی ہیں،جن سے ان کا تشیع کی طرف میلان معلوم ہوتا ہے ،لہٰذا اس تصریح کے بعد طبری کی وہ تمام روایات جن سے اہلِ تشیع کے مخصوص افکار کی تائید ہوتی ہے وہ غیر معتبر قرار پائیں گی۔
عصر حاضر کے اک محقق مولانا محمد نافع صاحب کا تبصرہ:-
تاریخ طبری میں منقول معتضد با للہ عباسی کا رسالہ جسے موٴرخ طبری نے ۲۸۴ھ کے تحت بلا کسی نقد و تحقیق و تمحیص اور کلام کے نقل کیا ہے، جس میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں حضرات کے خلاف سب و شتم اور لعن طعن کرنے کے جواز میں مواد فراہم کیا اور اس میں موجباتِ لعن و طعن درج کیے ہیں،اس رسالہ پر تنقید کرتے ہوئے ”الطبری کی حکمتِ عملی“ کے تحت مولانا محمد نافع نے” فوائدِنافعہ “میں جو کچھ فرمایا وہ من و عن پیش خدمت ہے:
”غور طلب بات یہ ہے کہ صاحب التاریخ محمد ابن جریر الطبری کے لیے عباسیوں کے اس فراہم کردہ غلیظ مواد کو من و عن نقل کے لیے اپنی تصنیف میں شامل کرنے کا کون سا داعیہ تھا؟اور اس نے کون سی مجبوری کی بنا پر یہ کارِ خیرانجام دیا؟ گو یا الطبری نے اس مواد کو اپنی تاریخ میں درج کر کے آنے والے لوگوں کو اس پر آگاہ کیا اور سب وشتم اور لعن طعن کے جو دلائل عباسیوں نے مرتب کروائے تھے، ان پر آئندہ نسلوں کو مطلع کرنے کا ثواب کمایا؟چناں چہ شیعہ اور روافض رسالہٴ مذکورہ میں مندرجہ مواد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی کتب میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر مطاعن قائم کرتے ہیں اور شدید اعتراضات پیدا کرتے ہیں۔(2)
مولانا مہرمحمد صاحب کی رائے
ابن جریر طبری کا مذہب ،اس عنوان کے تحت مولانا مہرمحمد صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ وہی امام طبری المتوفی ۳۱۰ھ ہیں جنہیں اہلِ بغداد نے تشیع سے متہم کر کے اپنے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا تھا(3)،گو شیعہ نہیں ہیں؛ تاہم اپنی تاریخ یا تفسیر میں ایسی کچی پکی روایات خوب نقل کر دیتے ہیں جو شیعہ کی موضوع یا مشہور کی ہوئی ہوتی ہیں۔ (4 )
عرب علماء کی رائے:-
معاصر عرب اہل علم حضرات میں سے ڈاکٹر خالد علال کبیر صاحب (5)نے اپنی کتاب ”مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ“ میں موٴرخ طبری کے اس مخصوص طرزِ عمل کے بارے میں لکھا ہے کہ
"میرے نزدیک انھوں نے یہ (یعنی تحقیق و تمحیص کے بغیر صرف اسانید کے ساتھ روایات کو نقل کر کے) ایک ناقص کام کیا ہے، اور ان تمام روایات کے وہ خود ذمہ دار ہیں جو انہوں نے اپنی تاریخ میں مدون کی ہیں،پس انہوں نے عمداً دروغ گو راویوں سے بہ کثرت روایات نقل کیں اور ان پر سکوت اختیار کیا،
یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے جو بعد میں آنے والی بہت ساری نسلوں کی گمراہی کا سبب بنا، انھیں (طبری) چاہیے تھا کہ وہ ان دروغ گو رایوں کا بغیر ضرورت کے تذکرہ نہ کرتے، یا ان پر نقد کرتے اور ان کی روایات کی جانچ پڑتال کرتے، صرف ان کی اسانید کے ذکر پر اکتفا کر کے سکوت اختیار نہ کرتے۔
نقدِ روایات اس لیے ضروری تھا کہ تاریخِ طبری کا مطالعہ کرنے والوں میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جن میں اتنی علمی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ان روایات پر سند و متن کے اعتبار سے نقد کرسکیں،اگر اس سے استفادہ کرنے والے صرف حدیث، تاریخ و دیگر علوم میں متبحر ہوتے تو یہ طے شدہ بات تھی کہ وہ نقد و تمحیص کا عمل انجام دیتے۔ (6)
ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں کہ
" اس معاملہ کو اس سے بھی زیادہ سنگین اس بات نے کردیا کہ طبری کے بعد آنے والے اکثر موٴرخین نے قرونِ ثلاثہ کے بارے میں ان سے بہ کثرت روایات نقل کی ہیں ، جیسا کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”المنتظم“‘ میں، ابن الاثیر نے ”الکامل“ میں اور ابن کثیر نے ”البدایہ“ میں بغیر سند کے نقل کیا ہے، اور ان حضرات کا اس طرح بغیر سند کے روایات نقل کرنے سے ثقہ اور دروغ گو راویوں کی روایات خلط ملط ہوگئیں ہیں، بسا اوقات تاریخ طبری کی طرف مراجعت کے بغیر ان روایات میں تمیز مستحیل ہوجاتی ہے۔(7)
خود علامہ طبری کا اپنی تاریخ کے مقدمہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بغیر نقدو تمحیص کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے راویوں کی روایات کو ان کی اسانید کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ہم قارئین کے اطمینان قلبی کی خاطر علامہ طبری کی وہ پوری عربی عبارت پیش خدمت ہے، جس میں انہوں نے محض سند کے ساتھ بغیر نقد و تمحیص کے روایات ذکر کرنے کا اعتراف کیا ہے:
”فَمَا یَکُنْ فِيْ کِتَابِيْ ھَذا مِنْ خَبَرٍ ذَکَرْناہ عن بَعْضِ الماضِیْنَ مِمَّا یَسْتَنْکِرُہ قَارِیہِ، أو یَسْتَشْنَعُہ سَامِعُہ، مِنْ أَجَلِ أنَّہ لَمْ یَعْرِفْ لَہ وَجْھاً فِي الصِّحَّةِ، وَلاَ مَعْنًی فِي الْحَقِیْقَةِ، فَلِیُعْلَمْ أنَّہ لَمْ یُوٴْتِ فِيْ ذٰلِکَ مِنْ قَبْلِنَا، وَ إنَّمَا مِنْ قِبَلِ بَعْضِ نَاقِلِیْہِ إِلَیْنَا، وَأنّا إنَّما أدَّیْنَا ذلِکَ عَلی نَحْوِمَا أُدِّيَ إلَیْنَا“․(۲۷)
! کیا صرف سند کے ساتھ رطب و یابس، غث و سمین اور ثقہ و غیر معتبر ہر طرح کی روایات کا نقل محض کسی بھی ثقہ مصنف کے لیے معقول عذر بن سکتا ہے؟ کیا اس بنیاد پر ثقہ مصنف کی نقل کردہ ہر روایت کو قبول کیا جاسکتا ہے. ؟
حواشی :-
(1) میزان الاعتدال :۳/۴۹۹،لسان المیزان :۵/۱۰۰
(2) فوائدنافعہ:۱/۵۷۔۵۸،دار الکتاب لاہور
(3 ) معجم الأدباء :۶/۵۱۴
(4) ہزار سوال کا جواب ،ص:۷۹،مرحبا اکیڈمی
(5 ) موصوف نے جامعة الجزائر سے تاریخ اسلامی میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے۔
(6) مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ: ۱/۶۷، ۶۸
(7 ) حوالہٴ سابق
1 comments:
ثِقَةٌ صَادِقٌ فِیْہ تَشَیُّعٌ یَسِیْرٌ وَ مُوَالَاةٌ لَاتَضُرُّ“
اس تبصرہ میں تو وہ بات نہیں جو نتیجہ آپ نے نکالا ہے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔