دروغ گوراویوں کے اس مخصوص مکتبہٴ فکر نے ہماری پوری تاریخِ اسلامی پر عام طور سے اور قرونِ ثلاثہ پر خاص طور سے بہت سے زہریلے اور بُرے اثرات چھوڑے ، مقامِ فکر یہ ہے کہ ان دروغ گو اور گذّاب( اور متہم بالکذب) لوگوں کی روایات ہماری تاریخ ، ادب اور دینی تصانیف میں سرایت کر گئیں، اور ان کے ایک بڑے اور معتدبہ حصہ کو اپنے جھوٹ سے فاسد کرڈالا، جس کے نتیجہ میں ثقہ روایات کے ساتھ ابا طیل، خرافات و متنا قضات،ان کتابوں میں شامل ہوگئیں.
کذّاب اور دروغ گو رایوں کی یہ موضوع ومن گھڑت اور نصوص شریعت و حاملینِ دین متین سے متصادم روایات ہی امتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار اور تمام گروہی اختلافات کی اساس و بنیاد ہیں، جن کو صراطِ مستقیم سے منحرف فرقوں نے جب مذہبی قداست کا لبادہ اوڑھا دیا تو اس مکتبہٴ فکر کے ماننے والوں نے ان روایات کو دین اور رجال پر طعن کرنے ، گمراہ افکارکی نصرت و تائید ، مسلمہ حقائق اور متوارث تاریخ اسلامی میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے بطور سلاح کے استعمال کرنا شروع کردیا۔
امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والا منصف مزاج محقق ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان دروغ گو مکتبہ فکر کے گمراہ لوگوں نے اپنے مخصوص افکار و عقائد کی بنیاد اپنے مکتبہٴ فکر کے ان مخصوص اور دروغ گو رایوں کی روایات پر رکھی ہے، اور قرآنِ کریم اور سنتِ صحیحہ و دیگر نصوصِ شریعت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
اگر یہ گمراہ فرقے آج بھی قرآنِ کریم، سنتِ صحیحہ اور دیگر متواتر و قطعی نصوص شریعت کی طرف رجوع کریں گے تو امتِ مسلمہ میں ہر طرح کے اختلاف ختم ہو جائیں اور یہ امت پھر سے ایک جسد و قلب کی مانند متفق و متحد ہو جائے گی،امتِ مسلمہ کے اتحاد کا یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔