جور وستم کا مذکورہ سلسلہ نبوت کے چوتھے سال کے درمیان یا آخر میں شروع ہوا تھا اور ابتدا معمولی تھا مگر دن بدن اور ماہ بماہ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ نبوت کے پانچویں سال کا وسط آتے آتے اپنے شباب کو پہنچ گیا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا دوبھر ہوگیا اور انہیں ان پیہم ستم رانیوں سے نجات کی تدبیر سوچنے کے لیے مجبورہوجانا پڑا۔ ان ہی سنگین اور تاریک حالات میں سورۂ زُمَر کا نزول ہوا۔ اوراس میں ہجرت کی طرف اشارہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے۔
لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّـهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (۳۹: ۱۰ )
''جن لوگوں نے اس دنیامیں اچھائی کی ان کے لیے اچھا ئی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے۔صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائے گا۔''
ادھر رسول اللہﷺ کو معلوم تھا کہ اَصحَمَہ نجاشی شاہ حبش ایک عادل بادشاہ ہے۔ وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ اس لیے آپﷺ نے مسلمانو ں کو حکم دیا کہ وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے حبشہ ہجرت کر جائیں۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۹/۹)
اس کے بعد ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق رجب ۵ نبوی میں صحابہ کرامؓ کے پہلے گروہ نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ اس گروہ میں بارہ مرد اور چار عورتیں تھیں۔ حضرت عثمان بن عفانؓ ان کے امیر تھے اور ان کے ہمراہ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ بھی تھیں۔رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔
یہ لوگ رات کی تاریکی میں چپکے سے نکل کر اپنی نئی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ رازداری کا مقصد یہ تھا کہ قریش کو اس کا علم نہ ہوسکے۔ رُخ بحر احمر کی بندرگاہ شُعَیْبَہ کی جانب تھا۔ خوش قسمتی سے وہاں دوتجارتی کشتیاں موجود تھیں، جو انہیں اپنے دامنِ عافیت میں لے کر سمندر پار حبشہ چلی گئیں۔ قریش کوکسی قدر بعد میں ان کی روانگی کا علم ہوسکا۔ تاہم انہوں نے پیچھا کیا اور ساحل تک پہنچے لیکن صحابہ کرام ؓ آگے جاچکے تھے ، اس لیے نامراد واپس آئے۔ ادھر مسلمانوں نے حبشہ پہنچ کر بڑے چین کا سانس لیا۔ (زاد المعاد ۱/۲۴)
مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کا سجدہ اور مہاجرین کی واپسی:
لیکن اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبیﷺ ایک بار حرم تشریف لے گئے۔ وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دم اچانک کھڑے ہو کر سورۂ نجم کی تلاوت شروع کردی۔ ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنانہ تھا۔ کیونکہ ان کا دائمی وطیرہ قرآن کے الفاظ میں یہ تھا کہ :
لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ (۴۱: ۲۶)
''اس قرآن کو مت سنو اور اس میں خلل ڈالو۔ (اودھم مچاؤ) تاکہ تم غالب رہو۔''
لیکن جب نبیﷺ نے اچانک اس سورۂ کی تلاوت شروع کردی اور ان کے کانوں میں ایک ناقابل بیان رعنائی ودلکشی اور عظمت لیے ہوئے کلام الٰہی کی آواز پڑی تو انہیں کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب گوش بر آواز ہوگئے کسی کے دل میں کوئی خیال ہی نہ آیا۔ یہاں تک کہ جب آپ نے سورہ کے اواخر میں دل ہلا دینے والی آیات فرماکر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ:
{فَاسْجُدُوْا لِلَّہِ وَاعْبُدُوْا} (۵۳: ۶۲ )
''اللہ کے لیے سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو۔''
اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا ، اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حق کی رعنائی وجلال نے متکبرین ومستہزئین کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کردیا تھا۔ اس لیے انہیں اپنے آپ پر قابو نہ رہ گیا تھا اور وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑے تھے۔ (صحیح بخاری میں اس سجدے کا واقعہ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مختصراً مروی ہے ، دیکھئے: باب سجدۃ النجم اور باب سجود المسلمین والمشرکین ۱/۱۴۶ اور باب ما لقی النبی ﷺ واصحابہ بمکۃ ۱/۵۴۳)
لیکن بعد میں جب انہیں احساس ہوا کہ کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگا م موڑدی اور وہ ٹھیک وہی کام کر بیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے انہوں نے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا رکھا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیر موجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھ کے طوطے اُڑ گئے اور انہوںنے اپنی جان چھڑانے کے لیے رسول اللہﷺ پر یہ افتراء پردازی کی اور یہ جھوٹ گھڑا کہ آپ نے ان بتوں کا ذکر عزت واحترام سے کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ :
((تلک الغرانیق العلی ، وان شفاعتھن لترتجی۔))
''یہ بلند پایہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے۔''
حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لیے گھڑلیاگیا تھا تاکہ نبیﷺ کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو'' غلطی'' ہو گئی ہے اس کے لیے ایک ''معقول'' عذر پیش کیا جاسکے اور ظاہر ہے کہ جو لوگ نبیﷺ پر ہمیشہ جھوٹ گھڑتے اور آپ کے خلاف ہمیشہ دسیسہ کاری اور افتراء پردازی کرتے رہے تھے ، وہ اپنادامن بچانے کے لیے اس طرح کا جھوٹ کیوں نہ گھڑتے۔
بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی معلوم ہوئی لیکن اپنی اصل صورت سے بالکل ہٹ کر۔ یعنی انہیں یہ معلوم ہوا کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ماہ شوال میں مکہ واپسی کی راہ لی لیکن جب اتنے قریب آگئے کہ مکہ ایک دن سے بھی کم فاصلے پر رہ گیا تو حقیقت حال آشکارا ہوئی۔ اس کے بعدکچھ لوگ تو سیدھے حبشہ پلٹ گئے اور کچھ لوگ چھپ چھپا کر یا قریش کے کسی آدمی کی پناہ لے کر مکے میں داخل ہوئے۔ (زاد المعاد ۱/۲۴، ۲/۴۴، ابن ہشام ۱/۳۶۴)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔