Wednesday 18 February 2015

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روَسائے قریش کی بات چیت


عتبہ کی مذکورہ پیش کش کا جس انداز میں رسول اللہﷺ نے جواب دیا تھا اس سے قریش کی توقعات پورے طور سے ختم نہیں ہوئی تھیں۔ کیونکہ آپ کے جواب میں ان کی پیشکش کو ٹھکرانے یا قبول کرنے کی صراحت نہ تھی۔ بس آپ نے چند آیات تلاوت کر دیں تھیں ، جنہیں عتبہ پورے طور پر سمجھ نہ سکا تھا اور وہیں واپس چلا گیا تھا۔ اس لیے قریش نے آپس میں پھرمشورہ کیا۔ معاملے کے پہلوؤں پر نظر دوڑائی اور سارے امکانات کا غور وخوض کے ساتھ جائزہ لیا۔ اس کے بعد ایک دن سورج ڈوبنے کے بعد کعبہ کی پشت پر جمع ہوئے اور رسول اللہﷺ کو بلا بھیجا۔ آپ خیر کی توقع لیے ہوئے جلدی سے تشریف لائے۔ جب ان کے درمیان بیٹھ چکے تو انہوں نے ویسی ہی باتیں کہیں جیسی عتبہ نے کہی تھیں اور وہی پیشکش کی جو عتبہ نے کی تھی۔ شاید ان کا خیال رہا ہو کہ ممکن ہے تنہا عتبہ کے پیشکش کرنے سے آپ کو پورا اطمینان نہ ہوا ہو۔ اس لیے جب سارے رؤساء مل کر اس پیشکش کو دہرائیں گے تو اطمینان ہوجائے گا اور آپ اسے قبول کر لیں گے۔ مگر آپﷺ نے فرمایا :
''میرے ساتھ وہ بات نہیں جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں۔ میں آپ لوگوں کے پاس جو کچھ لے کر آیا ہوں وہ اس لیے نہیں لے کر آیا ہوں کہ مجھے آپ کا مال مطلوب ہے۔ یا آپ کے اندر شرف مطلوب ہے۔ یا آپ پر حکمرانی مطلوب ہے۔ نہیں بلکہ مجھے اللہ نے آپ کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ مجھ پر اپنی کتاب اتاری ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کو خوشخبری دوں اور ڈراؤں۔ لہٰذا میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور آپ لوگوں کو نصیحت کردی۔ اب اگر آپ لوگ میری لائی ہوئی بات قبول کرتے ہیں تو یہ دنیا اور آخرت میں آپ کا نصیب ہے اور اگر رد کرتے ہیں تو میں اللہ کے امر کا انتظار کروں گا ، یہاں تک کہ وہ میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ فرمادے۔''
اس جواب کے بعد انہوں نے ایک دوسرا پہلو بدلا کہنے لگے: آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ہمارے پاس سے ان پہاڑوں کو ہٹا کر کھلا ہو میدان بنادے او راس میں ندیاں جاری کر دے اور ہمارے مُردوں بالخصوص قصی بن کلاب کو زندہ کر لائے۔ اگر وہ آپ کی تصدیق کردیں تو ہم بھی ایمان لے آئیں گے۔ آپ نے ان کی اس بات کا بھی وہی جواب دیا۔
اس کے انہوں نے ایک تیسر اپہلو بدلا۔ کہنے لگے آپ اپنے رب سے سوال کریں کہ وہ ایک فرشتہ بھیج دے جو آپ کی تصدیق کرے اور جس سے ہم آپ کے بارے میں مراجعہ بھی کرسکیں اور یہ بھی سوال کریں کہ آپ کے لیے باغات ہوں ، خزانے ہوں اور سونے چاندی کے محل ہوں۔ آپ نے اس بات کا بھی وہی جواب دیا۔
اس کے بعد انہوں نے ایک چوتھا پہلو بدلا۔ کہنے لگے کہ اچھا تو آپ ہم پر عذاب ہی لادیجیے اور آسمان کا کوئی ٹکڑا ہی گرادیجیے۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں اور دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : اس کا اختیار اللہ کو ہے۔ وہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ کے رب کو معلوم نہ تھا کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھیں گے۔ آپ سے سوال وجواب کریں گے اور آپ سے مطالبے کریں گے کہ وہ سکھا دیتا کہ آپ ہمیں کیا جواب دیں گے اور اگر ہم نے آپ کی بات نہ مانی تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ؟
پھر اخیر میں انہوں نے سخت دھمکی دی اور کہنے لگے: سن لو ! جوکچھ کر چکے ہو اس کے بعد ہم تمہیں یوں ہی نہیں چھوڑیں گے بلکہ یا تو تمہیں مٹادیں گے یا خود مٹ جائیں گے۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ اٹھ گئے اور اپنے گھر واپس آگئے۔ آپ کو غم وافسوس تھا کہ جو توقع آپ نے باندھ رکھی وہ پوری نہ ہوئی۔ (ملخص از روایت ابن اسحاق (ابن ہشام ۱/۲۹۵، ۲۹۸ ) وابن جریر وابن المنذرو ابن ابی حاتم (الدر المنثور ۴/۳۶۵،۳۶۶))
جب رسول اللہﷺ ان لوگوں کے پاس سے اٹھ کرواپس تشریف لے گئے تو ابوجہل نے انہیں مخاطب کر کے پورے غرور وتکبر کے ساتھ کہا :
برادران قریش آپ دیکھ رہے ہیں کہ محمد (ﷺ ) ہمارے دین کی عیب چینی ، ہمارے آباء واجداد کی بد گوئی ، ہماری عقلوں کی تخفیف اور ہمارے معبودوں کی تذلیل سے باز نہیں آتا ، اس لیے میں اللہ سے عہد کررہا ہوں کہ ایک بہت بھاری اور بمشکل اٹھنے والاپتھر لے کر بیٹھوں گا اور جب وہ سجدہ کرے گا تو اس پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا۔ اب اس کے بعد چاہے آپ لوگ مجھ کو بے یارومددگار چھوڑدیں چاہے میری حفاظت کریں اور بنوعبد مناف بھی اس کے بعد جو جی چاہے کریں۔
لوگوں نے کہا : نہیں واللہ! ہم تمہیں کبھی کسی معاملے میں بے یارومدد گار نہیں چھوڑسکتے، تم جو کرنا چاہو کر گزرو۔ چنانچہ صبح ہوئی تو ابوجہل ویسا ہی ایک پتھر لے کر رسول اللہﷺ کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ رسول اللہﷺ حسب دستور تشریف لائے ، اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے ، قریش بھی اپنی اپنی مجلسوں میں آچکے تھے اور ابو جہل کی کاروائی دیکھنے کے منتظر تھے۔
جب رسول اللہﷺ سجدے میں تشریف لے گئے تو ابوجہل نے پتھر اٹھایا ، پھر آپ کی جانب بڑھا لیکن جب قریب پہنچا تو شکست خوردہ حالت میں واپس بھاگا۔ اس کار نگ فق تھا اور اس قدر مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ پتھر پر چپک کر رہ گئے تھے۔ وہ بمشکل ہاتھ سے پتھر پھینک سکا۔ ادھر قریش کے کچھ لوگ اٹھ کر اس کے پاس آئے ، اور کہنے لگے : ابو الحکم تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے رات جو بات کہی تھی وہی کرنے جارہا تھا لیکن جب اس کے قریب پہنچا تو ایک اونٹ آڑے آگیا۔ واللہ! میں نے کبھی کسی اونٹ کی ویسی کھوپڑی ، ویسی گردن اور ویسے دانت دیکھے ہی نہیں، وہ مجھے کھا جانا چاہتا تھا۔
ابن اسحاق کہتے ہیں : مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : یہ جبریل علیہ السلام تھے، اگر ابوجہل قریب آتا تو اسے دھر پکڑتے۔ (ابن ہشام ۱/۲۹۸، ۲۹۹)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔