اس بائیکاٹ کے نتیجے میں حالات نہایت سنگین ہوگئے۔ غلّے اور سامان خوردونوش کی آمد بند ہوگئی۔ کیونکہ مکے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا تھا اسے مشرکین لپک کر خرید لیتے تھے۔ اس لیے محصورین کی حالت نہایت پتلی ہوگئی، انہیں پتے اور چمڑے کھانے پڑے۔
فاقہ کشی کا حال یہ تھا بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں گھاٹی کے باہر سنائی پڑتی تھیں۔ ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی ، وہ بھی پس پردہ۔ وہ لوگ
حرمت والے مہینوں کے علاوہ باقی ایام میں اشیائے ضرورت کی خرید کے لیے گھاٹی سے باہر نکلتے بھی نہ تھے اور پھر انہیں قافلوں کا سامان خرید سکتے تھے جو باہر سے مکہ آتے تھے لیکن ان کے سامان کے دام بھی مکے والے اس قدر بڑھا کر خریدنے کے لیے تیار ہوجاتے تھے کہ محصورین کے لیے کچھ خریدنا مشکل ہوجاتا تھا۔
حکیم بن حزام جو حضرت خدیجہ ؓ کا بھتیجا تھا کبھی کبھی اپنی پھوپھی کے لیے گیہوں بھجوادیتا تھا۔ ایک بار ابوجہل سے سابقہ پڑ گیا۔ وہ غلہ روکنے پر اڑ گیا لیکن ابو البختری نے مداخلت کی اور اسے اپنی پھوپھی کے پاس گیہوں بھجوانے دیا۔
ادھر ابو طالب کو رسول اللہﷺ کے بارے میں برابر خطرہ لگا رہتا تھا اس لیے جب لوگ اپنے اپنے بستروں پر جاتے تو وہ رسول اللہﷺ سے کہتے تم اپنے بستر پر سو رہو۔ مقصد یہ ہوتا کہ اگر کوئی شخص آپ کو قتل کرنے کی نیت رکھتا ہوتو دیکھ لے کہ آپ کہا ں سو رہے ہیں۔ پھر جب لوگ سو جاتے تو ابوطالب آپ کی جگہ بدل دیتے، یعنی اپنے بیٹوں ، بھائیوں یا بھتیجوں میں سے کسی کو رسول اللہﷺ کے بستر پر سلا دیتے اور رسول اللہﷺ سے کہتے کہ تم اس کے بستر پر چلے جاؤ۔
اس محصوری کے باوجود رسول اللہﷺ اور دوسرے مسلمان حج کے ایام میں باہر نکلتے تھے اور حج کے لیے آنے والوں سے مل کر انہیں اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ اس موقع پر ابو لہب کی جو حرکت ہوا کرتی تھی اس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکاہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔