مذکورہ اتنی بات چیت ، ترغیبات ، سودے بازیوں اوردست برداریوں میں ناکامی کے بعد مشرکین کے سامنے راستے تاریک ہوگئے تھے ۔ وہ حیران تھے کہ اب کیاکریں۔ چنانچہ ان کے ایک شیطان نضر بن حارث نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا :
قریش کے لوگو !و اللہ! تم پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ تم لوگ اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں لا سکے۔محمد تم میں جوان تھے تو تمہارے سب سے پسندیدہ آدمی تھے سب سے زیادہ سچے اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھے۔ اب جبکہ ان کی کنپٹیوں پر سفیدی دکھائی پڑنے کو ہے (یعنی ادھیڑ ہوچلے ہیں ) اور وہ تمہارے پاس کچھ باتیں لے کر آئے ہیں تم کہتے ہو کہ وہ جادوگر ہیں نہیں ، واللہ !وہ جادوگر نہیں۔ ہم نے جادوگر دیکھے ہیں۔ ان کی چھاڑ پھونک اور گرہ بندی بھی دیکھی ہے اور تم لوگ کہتے ہو وہ کاہن ہیں۔ نہیں واللہ! وہ کاہن بھی نہیں ، ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں۔ ان کی الٹی سیدھی حرکتیں بھی دیکھی ہیں اور ان کی فقرہ بندیاں بھی سنی ہیں ، تم لوگ کہتے ہو وہ شاعر ہیں۔ نہیں ، واللہ !وہ شاعر بھی نہیں۔ ہم نے شعر بھی دیکھا ہے اور اس کے سارے اصناف ، ہجز ، رجز وغیرہ سنے ہیں۔ تم لوگ کہتے ہو وہ پاگل ہیں۔ نہیں واللہ !وہ پاگل بھی نہیں ، ہم نے پاگل پن بھی دیکھا ہے۔ ان کے یہاں نہ اس طرح کی گھٹن ہے نہ ویسی بہکی بہکی باتیں ، اور نہ ان کے جیسی الٹی سیدھی حرکتیں۔ قریش کے لوگو ! سوچو ، واللہ ! تم پر زبردست افتاد آن پڑی ہے۔
ایسا معلوم ہو تا ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ نبیﷺ ہر چیلنج کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں۔ آپ نے ساری ترغیبات پر لات مار دیا ہے اور ہر معاملے میں بالکل کھرے اور ٹھوس ثابت ہوئے ہیں۔ جبکہ سچائی ، پاکدامنی ، اور مکارم اخلاق سے پہلے ہی سے بہرہ ور چلے آرہے ہیں۔ تو ان کا یہ شبہ زیادہ قوی ہوگیا کہ آپ واقعی رسول برحق ہیں۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہود سے رابطہ قائم کرکے آپ کے بارے میں ذرا اچھی طرح اطمینان حاصل کرلیا جائے۔ چنانچہ جب نضر بن حارث نے مذکورہ نصیحت کی تو قریش نے خود اسی کو مکلف کیا کہ وہ ایک یا چند آدمیوں کو ہمراہ لے کر یہود مدینہ کے پاس جائے، اور ان سے آپ کے معاملے کی تحقیق کر ے۔
چنانچہ وہ مدینہ آیا تو علماء یہود نے کہا کہ اس سے تین باتوں کا سوال کرو۔ اگر وہ بتادے تو نبی مرسل ہے ورنہ سخن ساز۔
اس سے پوچھو کہ پچھلے دور میں کچھ نوجوان گزرے ہیں ان کا کیا واقعہ ہے ؟ کیونکہ ان کا بڑا عجیب واقعہ ہے ۔
اور اس سے پوچھو کہ ایک آدمی نے زمین کے مشرق ومغرب کے چکر لگائے اس کی کیا خبر ہے ؟
اور اس سے پوچھو کہ روح کیا ہے ؟
اس کے بعد نضر بن حارث مکہ آیا تواس نے کہا کہ میں تمہارے اور محمد کے درمیان ایک فیصلہ کن بات لے کر آیا ہوں اس کے ساتھ ہی اس نے یہود کی کہی ہوئی بات بتائی۔ چنانچہ قریش نے آپ سے ان تینوں باتوں کا سوال کیا۔ چند دن بعد سورہ ٔ کہف نازل ہوئی جس میں ان جوانوں کا اور اس چکر لگانے والے آدمی کا واقعہ بیان کیا گیا تھا جو ان اصحاب کہف میں سے تھے اور وہ آدمی ذوالقرنین تھا۔ روح کے متعلق جواب سورۂ اسراء میں نازل ہوا۔ اس سے قریش پر یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ سچے اور برحق پیغمبر ہیں لیکن ان ظالموں نے کفر وانکار ہی کا راستہ اختیار کیا۔ (ابن ہشام ۱/۲۹۹ ، ۳۰۰ ، ۳۰۱)
مشرکین نے رسول اللہﷺ کی دعوت کا جس انداز سے مقابلہ کیا تھا یہ اس کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔ انہوں نے یہ سارے اقدامات پہلو بہ پہلو کیے تھے۔ وہ ایک ڈھنگ سے دوسرے ڈھنگ اور ایک طرز عمل سے دوسرے طرز عمل کی طرف منتقل ہوتے رہتے تھے۔ سختی سے نرمی کی طرف اور نر می سے سختی کی طرف، جدال سے سودے بازی کی طرف اور سودے بازی سے جدال کی طرف ، دھمکی سے ترغیب کی طرف اور ترغیب سے دھمکی کی طرف ، کبھی بھڑکتے ، کبھی نرم پڑ جاتے ، کبھی جھگڑے اور کبھی چکنی چکنی باتیں کرنے لگتے۔ کبھی مرنے مارنے پر اترآتے اور کبھی خود اپنے دین سے دست بردار ہونے لگتے کبھی گرجتے برستے اور کبھی عیش دنیا کی پیشکش کرتے۔ نہ انہیں کسی پہلو قرار تھا۔ نہ کنارہ کشی ہی گورا تھی اور ان سب کا مقصود یہ تھا کہ اسلامی دعوت ناکام ہوجائے اور کفر کا پراگندہ شیرازہ پھر سے جڑ جائے ، لیکن ان ساری کوششوں اور سارے حیلوں کے بعد بھی وہ ناکام ہی رہے اور ان کے سامنے صرف ایک ہی چارہ ٔ کا ر رہ گیا اور یہ تھا تلوار ، مگر ظاہر ہے تلوار سے اختلاف میں اور شدت ہی آتی، بلکہ باہم کشت وخون کا ایسا سلسلہ چل پڑتا جو پوری قوم کو لے ڈوبتا اس لیے مشرکین حیران تھے کہ وہ کیا کر یں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔