یہ دونوں الم انگیز حادثے صرف چند دنوں کے دوران پیش آئے۔ جس سے نبیﷺ کے دل میں غم والم کے احساسات موجزن ہوگئے اور اس کے بعد قوم کی طرف سے بھی مصائب کا طومار بندھ گیا کیونکہ ابوطالب کی وفات کے بعد ان کی جسارت بڑھ گئی اور وہ کھل کر آپﷺ کو اذیت اور تکلیف پہنچانے لگے۔ اس کیفیت نے آپﷺ کے غم والم میں اور اضافہ کر دیا۔
آپﷺ نے ان سے مایوس ہوکر طائف کی راہ لی کہ ممکن ہے وہاں لوگ آپﷺ کی دعوت قبول کرلیں۔ آپﷺ کو پناہ دے دیں۔ اور آپﷺ کی قوم کے خلاف آپﷺ کی مدد کریں لیکن وہاں نہ کوئی پناہ دہندہ ملا نہ مدد گار بلکہ الٹے انہوں نے سخت اذیت پہنچائی اور ایسی بدسلوکی کہ خود آپﷺ کی قوم نے ویسی بد سلوکی نہ کی تھی۔(تفصیل آگے آرہی ہے)
یہاں اس بات کا اعادہ بے محل نہ ہوگا کہ اہل مکہ نے جس طرح نبیﷺ کے خلاف ظلم وجورکا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اسی طرح وہ آپﷺ کے رفقاء کے خلاف بھی ستم رانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپﷺ کے ہمدم وہمراز سیّدنا ابوبکر صدیقؓ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور حبشہ کے ارادے سے تن بہ تقدیر نکل پڑے ، لیکن برکِ غَماَد پہنچے تو ابن دغنہ سے ملاقات ہوگئی اور وہ اپنی پناہ میں آپ کو مکہ واپس لے آیا۔ اکبر شاہ نجیب آباد ی نے صراحت کی ہے کہ یہ واقعہ اسی سال پیش آیا تھا۔ دیکھئے: تاریخ اسلام ۱/۱۲۰ ، اصل واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ ابن ِ ہشام ۱/۳۷۲ تا ۳۷۴ اور صحیح بخاری ۱/۵۵۲ ، ۵۵۳ میں مذکور ہے ۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب ابوطالب انتقال کر گئے تو قریش نے رسول اللہﷺ کو ایسی اذیت پہنچائی کہ ابوطالب کی زندگی میں کبھی اس کی آرزوبھی نہ کر سکے تھے حتیٰ کہ قریش کے ایک احمق نے سامنے آکر آپﷺ کے سر پر مٹی ڈال دی۔ آپﷺ اسی حالت میں گھر تشریف لائے۔ مٹی آپﷺ کے سر پر پڑی ہوئی تھی آپﷺ کی ایک صاحبزادی نے اٹھ کر مٹی دھلی، وہ دھلتے ہوئے روتی جارہی تھیں اور رسول اللہﷺ انہیں تسلی دیتے ہوئے فرماتے جارہے تھے۔ بیٹی ! روؤ مت، اللہ تمہارے ابا کی حفاظت کرے گا۔ اس دوران آپ یہ بھی فرماتے جارہے تھے کہ قریش نے میرے ساتھ کوئی ایسی بد سلوکی نہ کی جو مجھے ناگوار گزری ہو یہاں تک کہ ابوطالب کا انتقال ہوگیا۔ (ابن ہشام ۱/۴۱۶)
اسی طرح کے پے در پے آلام ومصائب کی بنا پر اس سال کا نام ''عام الحزن'' یعنی غم کا سال پڑگیا اور یہ سال اسی نام سے تاریخ میں مشہور ہوگیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔