Sunday, 1 February 2015

حضرت عمر کا قبولِ اسلام


ظلم وطغیان کے سیاہ بادلوں کی اسی گھمبیر فضا میں ایک اور برقِ تاباں کا جلوہ نمودار ہوا۔ جس کی چمک پہلے سے زیادہ حیرت کن تھی یعنی حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے۔ ان کے اسلام کا واقعہ ۶نبوی کا ہے۔وہ حضرت حمزہ ؓ کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے اور نبیﷺ نے ان کے اسلام لانے کے لیے دعا کی تھی۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اسی طرح طبرانی نے حضرت ابن مسعود اور حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :
• (( اللّٰھم أعز الاسلام بأحب الرجلین الیک ؛ بعمر بن الخطاب أو بأبی جھل بن ھشام۔))
'' اے اللہ ! عمر بن خطاب اور ابو جہل بن ہشام میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت پہنچا۔''
(اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عمر ؓ مسلمان ہوگئے ) اللہ کے نزدیک ان دونوں میں زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے۔ (ترمذی ابواب المناقب ! مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب ۲/۲۰۹)
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے متعلق جملہ روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اسلام رفتہ رفتہ جاگزیں ہوا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات کا خلاصہ پیش کرنے پہلے حضرت عمرؓ کے مزاج اور جذبات واحساسات کی طرف بھی مختصرا ً اشارہ کر دیا جائے۔
حضرت عمرؓ اپنی تند مزاجی اور سخت خوئی کے لیے مشہور تھے۔ مسلمانوں نے طویل عرصے تک ان کے ہاتھوں طرح طرح کی سختیاں جھیلی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں متضاد قسم کے جذبات باہم دست وگریباں تھے۔ چنانچہ ایک طرف تو وہ آباء واجداد کی ایجاد کردہ رسموں کا بڑا احترام کرتے تھے اور بلا نوشی اور لہو لعب کے دلدادہ تھے لیکن دوسری طرف وہ ایمان وعقیدے کی راہ میں مسلمانوں کی پختگی اور مصائب کے سلسلے میں ان کی قوتِ برداشت کو خوشگوار حیرت وپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پھر ان کے اندر کسی بھی عقلمند آدمی کی طرح شکوک وشبہات کا ایک سلسلہ تھا جو رہ رہ کر ابھرا کرتا تھا کہ اسلام جس بات کی دعوت دے رہا ہے غالباً وہی زیادہ برتر اور پاکیزہ ہے۔ اسی لیے ان کی کیفیت (دم میں ماشہ دم میں تولہ کی سی ) تھی۔ کہ ابھی بھڑکے اور ابھی ڈھیلے پڑ گئے۔
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے متعلق تمام روایات کا خلاصہ مع جمع وتطبیق یہ ہے کہ ایک رات انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔ وہ حرم تشریف لائے اور خانۂ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔ اس وقت نبیﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرمارہے تھے۔ حضرت عمرؓ قرآن سننے لگے اور اس کی تالیف پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے...اپنے جی میں... کہا : اللہ کی قسم! یہ تو شاعر ہے جیساکہ قریش کہتے ہیں ، لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ (۶۹: ۴۰، ۴۱)
''یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔''
حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے ...اپنے جی میں ...کہا : (اوہو ) یہ تو کاہن ہے لیکن اتنے میں آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ (۶۹: ۴۲ تا۴۳ )
''یہ کسی کاہن کا قول بھی نہیں۔ تم لوگ کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔'' ''اخیر سورۃ تک ''
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ اس وقت میرے دل میں اسلام جاگزیں ہو گیا۔( تاریخ عمر بن خطاب لابن الجوزی ص ۶،9-10)
یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عمرؓ کے دل میں اسلام کا بیج پڑا ، لیکن ابھی ان کے اندر جاہلی جذبات ، تقلیدی عصبیت اور آباء واجداد کے دین کی عظمت کے احساس کا چھلکا اتنا مضبوط تھا کہ نہاں خانہ ٔ دل کے اندر مچلنے والی حقیقت کے مغز پر غالب رہا۔ اس لیے وہ اس چھلکے کی تہہ میں چھپے ہوئے شعور کی پرواہ کیے بغیر اپنے اسلام دشمن عمل میں سرگرداں رہے۔



ایک روز خود رسول اللہﷺ کا کام تمام کرنے کی نیت سے تلوار لے کر نکل پڑے لیکن ابھی راستے ہی میں تھے کہ نعیم بن عبد اللہ النحام عدوی سے یا بنی زہرہ یا بنی مخزوم کے کسی آدمی سے ملاقات ہوگئی۔
اس نے تیور دیکھ کر پوچھا : عمر ! کہا ں کا ارادہ ہے ؟
انہوں نے کہا : محمد کو قتل کرنے جارہا ہوں۔
اس نے کہا : محمد کو قتل کرکے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے ؟
حضرت عمرؓ نے کہا : معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا پچھلا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہو۔
اس نے کہا :عمر ! ایک عجیب بات نہ بتا دوں ؟ تمہاری بہن اور بہنوئی بھی تمہارا دین چھوڑ کر بے دین ہوچکے ہیں۔
یہ سن کے عمر غصے سے بے قابو ہوگئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رخ کیا۔ وہاں انہیں حضرت خباب بن ارتؓ سورۂ طہٰ پر مشتمل ایک صحیفہ پڑھا رہے تھے اور قرآن پڑھانے کے لیے وہاں آنا جانا حضرت خباب ؓکا معمول تھا۔جب حضرت خباب ؓنے حضرت عمرؓ کی آہٹ سنی تو گھر کے اندر چھپ گئے۔ ادھر حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہ ؓ نے صحیفہ چھپا دیا لیکن حضرت عمر ؓ گھر کے قریب پہنچ کر حضرت خباب ؓ کی قراء ت سن چکے تھے۔ چنانچہ پوچھا کہ یہ کیسی دھیمی دھیمی آواز تھی جو تم لوگوں کے پاس میں نے سنی تھی ؟
انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ بس ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
حضرت عمرؓ نے کہا : غالباً تم دونوں بے دین ہوچکے ہو۔
بہنوئی نے کہا: اچھا عمر ! یہ بتاؤ اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اوردین میں ہو تو ؟
حضرت عمر ؓ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا۔ ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلودہوگیا۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ ان کے سر میں چوٹ آئی۔
بہن نے جوش غضب میں کہا : عمر ! اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا ہی دین برحق ہو تو ؟ أشھد أن لا الٰہ الا اللّٰہ وأشھد أنَّ محمدًا رسول اللّٰہ میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
یہ سن کر حضرت عمر ؓ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت بھی محسوس ہوئی۔ کہنے لگے: اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو۔
بہن نے کہا: تم ناپاک ہو۔ اس کتا ب کو صرف پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔ اٹھو غسل کرو۔ حضرت عمر ؓ نے اٹھ کر غسل کیا۔ پھر کتاب لی اور پڑھی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑے پاکیزہ نام ہیں۔ اس کے بعدسے (۲۰: ۱۴) تک قراء ت کی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا محترم کلام ہے۔ مجھے محمدﷺ کا پتہ بتاؤ !حضرت خباب ؓ حضرت عمر ؓ کے یہ فقرے سن کر اندر سے باہر آگئے۔ کہنے لگے : عمر خوش ہو جاؤ! مجھے امید ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعرات کی رات تمہارے متعلق جو دعا کی تھی ( کہ اے اللہ ! عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا) یہ وہی ہے اور اس وقت رسول اللہﷺ کوہ صفا کے پاس والے مکان میں تشریف فرماہیں۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی تلوار حمائل کی اور اس گھر کے پاس آکر دروازے پر دستک دی۔ ایک آدمی نے اٹھ کر دروازے کی دراز سے جھانکا تو دیکھا کہ عمر تلوار حمائل کیے موجود ہیں۔ لپک کر رسول اللہﷺ کو اطلاع دی اور سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہوگئے۔ حضرت حمزہؓ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا : عمر ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ نے کہا : بس ! عمر ہے۔ دروازہ کھول دو، اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو اسے ہم عطا کریں گے اور اگر کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کردیں گے۔ ادھر رسول اللہﷺ اندر تشریف فرما تھے۔ آپ پر وحی نازل ہورہی تھی۔ وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمر ؓ کے پاس تشریف لائے۔ بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پر تلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا : عمر ! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت ورسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے ؟
حضرت عمر ؓ نے کہا: أشھد أن لا الہ الا اللّٰہ وأنک رسول اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں اور یقینا آپ اللہ کے رسول ہیں )یہ سن کر گھر کے اندر موجود صحابہ ؓ نے اس زور سے تکبیر کہی کہ مسجد الحرام والوں کو سنائی پڑی۔
(تاریخ عمر بن الخطاب ص ۷، ۱۰، ۱۱ ، سیرت ابن ہشام ۱/۳۴۳ تا۳۴۶)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔